واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) امریکی شہری راین کوربیٹ، محمود حبیبی اور جارج گلیزمین گزشتہ دو سال سے طالبان کی قید میں ہیں۔ واشنگٹن کی جانب سے ان کی رہائی کے لیے ابھی تک کی جانے والی کوششیں کارآمد ثابت نہیں ہو سکیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ ہر رابطے میں اُن کے زیر حراست تین امریکی شہریوں کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے اور ان کی رہائی یقینی بنانا واشنگٹن کی اولین ترجیح رہے گی۔
امریکی شہری راین کوربیٹ اور محمود حبیبی کو اگست 2022 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے ایک سال بعد الگ الگ حراست میں لیا گیا تھا۔ ایک تیسرے امریکی شہری جارج گلیزمین کو بھی اسی سال افغانستان کی سیاحت کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
ملر نے جمعرات کو ایک پریس بریفنگ میں کہا، ”ہمیں افغانستان میں غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے امریکیوں محمود، راین اور جارج گلیزمین کی خیریت کے بارے میں گہری تشویش ہے اور طالبان کے ساتھ ہونے والے ہر رابطے پر ان کی حراست کا معاملہ اٹھاتے ہیں۔‘‘ ملر کا یہ بیان 10 اگست کو کوربیٹ اور حبیبی کی نظر بندی کے دو سال مکمل ہونے پر سامنے آیا ہے۔
ملر نے کہا، ”انہیں گھر لانا امریکہ کے لیے ایک اولین ترجیح رہے گا اور ہم ان کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘ تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے خصوصی معاون نے جون میں کہا تھا کہ کوربیٹ کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان حتی کے موت سے بچانے کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ کاربیٹ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک افغانستان میں رہے اور اس دوران وہ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے تھے۔
ملر نے کہا کہ امریکہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ہفتے واشنگٹن میں کوربیٹ کی اہلیہ اینا سے ملاقات کی۔ حبیبی امریکہ میں قائم ایک کمیونیکیشن کمپنی کے 30 یا اس سے زیادہ ملازمین میں سے ایک تھے، جنہیں امریکی حملے میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے فوراً بعد طالبان نے گرفتار کر لیا تھا۔
بیرون ملک قید امریکیوں کے معاملات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فولے فاؤنڈیشن کے مطابق حراست میں لیے گئے دیگر ملازمین کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن حبیبی کو بغیر کسی الزام کے بھی تک قید رکھا گیا ہے۔
محکمہ خارجہ نے کوربیٹ اور گلیزمین کو ”غلط طریقے سے حراست میں لیا گیا‘‘ کے طور پر نامزد کیا ہے، یہ ایک ایسا عنوان ہے، جو امریکی حکومت کے مزید وسائل کو ان کے مقدمات کی طرف لے جاتا ہے۔ ملر نے کہا کہ حبیبی کو ابھی تک مزکورہ درجہ نہیں ملا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکی اہلکار ان کی رہائی کے لیے کام نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا، ”میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم ان (حبیبی) کی رہائی کے لیے اوور ٹائم کام کر رہے ہیں۔‘‘