برلن (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف/اے پی/ڈی پی اے) دنیا کے بیشتر ممالک دونوں فریقوں پر غزہ کی جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی بحالی پر زور دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے پندرہ اگست کو سیزفائر مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔
بین الاقوامی برداری کی جانب سے اسرائیل اور حماس پر غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات بھی آج جمعے کے روز ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے، جو فریقین پر سیزفائر کے لیے مکالمت کی بحالی پر زور دے رہے ہیں۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے جمعے کے روز اسرائیل اور حماس دونوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’فوری طور پر‘‘ جنگ بندی معاہدے پر آمادہ ہو جائیں۔
ان کا یہ بیان امریکہ، قطر اور مصر کے اس مشترکہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے اطراف کے مابین مذاکرات دوبارہ شروع کیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈیوڈ لیمی نے ایک بیان میں کہا، ’’برطانیہ قطر، مصر اور امریکہ میں اپنے شراکت داروں کی انتھک کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے اور ان کے مشترکہ بیان کی مکمل حمایت کرتا ہے، جس میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کی فوری بحالی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر زور دیا گیا ہے۔‘‘
لیمی کا مزید کہنا تھا، ’’مزید تاخیر نہیں ہو سکتی، لڑائی اب بند ہونا چاہیے۔‘‘
اسی دوران جمعرات کے روز متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس پر زور دیا کہ وہ 15 اگست کو غزہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ثالث ممالک قطر، مصر اور امریکہ کی دعوت قبول کریں۔
امریکہ مصر اور قطر نے کیا کہا؟
امریکہ، قطر اور مصر کے رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ ممکنہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے حوالے سے اختلافات پر بات کرنے کے لیے اگلے ہفتے دوحہ یا قاہرہ میں مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔
ان تینوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں متحارب فریقوں کو 15 اگست تک دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک نے ایک “فریم ورک معاہدہ” تیار کیا تھا جس میں “صرف عمل درآمد کی تفصیلات ہی باقی رہ گئی تھیں۔”
امریکی صدر جو بائیڈن، مصری صدر عبدالفتاح السیسی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن احمد الثانی کے دستخط کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ” کسی بھی فریق کے پاس مزید تاخیر کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی وقت ضائع کرنے اور عذر کرنے کا کوئی موقع ہے۔” بیان میں مزید کہا گیا کہ “وقت آن پہنچا ہے کہ جنگ بندی پر معاہدہ کیا جائے اور یرغمالیوں اور قیدیوں کو رہا کیا جائے۔”
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ تقریباً 130 یرغمالی اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔ اسرائیل، جرمنی، یورپی یونین، امریکہ اور بعض دیگر ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اس بیان کو علاقائی کشیدگی کو کنٹرول سے باہر ہونے سے روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر الزام عائد کرتے ہوئے جوابی کارروائی کا وعدہ کیا ہے، حالانکہ اسرائیل نے اب تک اس قتل پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیل مذاکرات کار بھیجے گا
حماس نے اس اپیل پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے مذاکرات کاروں کو بات چیت کے لیے بھیجے گا۔
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل “تفصیلات کو حتمی شکل دینے اور فریم ورک معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک وفد بھیجے گا۔” امکان ہے کہ یہ بات چیت قاہرہ یا دوحہ میں ہو سکتی ہے، جس میں مصر اور قطر امریکہ کے ساتھ مل کرثالثی کر رہے ہیں۔
جمعرات کو تینوں ثالثوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ میز پر واپس آئیں اور اسرائیل حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دیں، جو اس ہفتے اپنے 11ویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے۔
یورپی یونین کی اسرائیلی وزیر کے بیان پر تنقید
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوسیپ بوریل نے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریش کے حالیہ اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، جس میں انہوں نے غزہ کے 20 لاکھ باشندوں کو یرغمالیوں کی واپسی تک بھوک سے مرنے دینے کا خیال پیش کیا تھا۔
بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ “شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا جنگی جرم ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “وزیر سموٹریش کا یہ کہنا کہ ‘یہ جائز اور اخلاقی ہو سکتا ہے’ کہ اسرائیل کو ‘یرغمالیوں کی واپسی’ تک ’20 لاکھ شہریوں کو بھوک سے مر جانے دینا چاہیے’، بے عزتی سے بھی بالاتر بات ہے۔”
بوریل نے مزید کہا، “ایک بار پھر یہ بین الاقوامی قانون اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ان کی توہین کو ظاہر کرتا ہے۔”
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار نے اسرائیلی حکومت سے بھی ان کے الفاظ سے دوری اختیار کرنے کا مطالبہ کیا۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے بھی سموٹریش کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔