نیو یارک (ڈیلی اردو) اقوامِ متحدہ میں ایران کے نمائندے علی شمخانی کا کہنا ہے کہ غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے کا ان کے ملک کے حقِ دفاع سے کوئی تعلق نہیں لیکن انھیں امید ہے کہ اسرائیل کے خلاف ان کے جوابی حملے سے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے نمائندے علی شمخانی کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی حکومت کی حالیہ دہشتگرد سرگرمیوں سے ہماری قومی سلامتی اور خود مختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘
’ہمیں اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کا غزہ میں جنگ بندی سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ہماری طرف سے ردِ عمل ایک ایسے وقت اور ایک ایسے طریقے سے دیا جائے گا جس سے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق نیویارک میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں علی شمخانی نے مزید کہا کہ ’غزہ میں جنگ بندی ہماری اولین ترجیح ہے اور جو معاہدہ حماس کو قبول ہوگا وہ ہمیں بھی قبول ہوگا۔‘
خیال رہے گذشتہ مہینے ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ مارے گئے تھے۔
اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی، تاہم ایران نے اسرائیل پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے نمائندے کے مطابق اسرائیل کو ’سخت سزا‘ دینے کے حوالے سے ابتدائی مشاورت مکمل ہوگئی ہے۔
ایران کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ ممکنہ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے لیے اپنے حکام کو دوحہ یا قاہرہ بھیجنے کے لیے راضی ہے۔
دوسری جانب حماس نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
گذشتہ کئی دنوں سے یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی تھیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے امریکہ کوششیں کر رہا ہے اور اس کی جانب سے ایران کو بھی پیغامات بھیجے گئے ہیں۔
امریکی کوششوں سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں علی شمخانی کا کہنا تھا کہ: ’ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کے تبادلے کے لیے ہمیشہ سے براہ راست سرکاری اور دیگر چینلز کُھلے رہے ہیں۔ تاہم فریقین کی ترجیج یہی ہے کہ اس کی تفصیلات پر خاموشی اختیار کی جائے۔‘