میانمار میں ڈرون حملہ، 200 سے زائد روہنگیا پناہ گزین ہلاک

ینگون (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے پی) عالمی خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق یہ حملہ پیر کے روز اس وقت کیا گیا، جب متعدد خاندان میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ باغی گروپ اراکان آرمی اور ملکی فوج نے ایک دوسرے پر اس حملے کا الزام عائد کیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ میں عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ رواں ہفتے بچوں سمیت درجنوں روہنگیا باشندے میانمار سے فرار ہونے کے دوران ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کا احوال سناتے ہوئے عینی شاہدین نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے حملے میں زندہ بچ جانے والوں کو لاشوں کے ڈھیر میں اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرتے دیکھا۔

https://x.com/ReutersWorld/status/1822191195679821863?t=pjfQcknTrCqEjYgPnVLWgA&s=19

رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ پیر کے روز اس وقت کی گیا، جب متعدد خاندان میانمار سے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں تھے۔

اس حملے کو حالیہ ہفتوں میں میانمار کی فوجی جنتا اور باغیوں کے مابین جاری لڑائیوں کے دوران ملک کی رخائن ریاست میں عام شہریوں پر ہونے والے مہلک ترین حملوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔

جمعے کو رائٹرز سے بات کرتے ہوئے تین عینی شاہدین نے باغی گروپ اراکان آرمی کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا، تاہم اراکان آرمی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اراکان آرمی اور ملکی فوج نے ایک دوسرے پر اس حملے کا الزام عائد کیا ہے۔

روئٹرز کی جانب سے آزادانہ طور پر نہ ہی اس بات کی تصدیق کی جا سکی ہے کہ یہ حملہ کس نے کیا اور نہ ہی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد کی۔

تاہم حملے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد نے رائٹرز سے گفتگو کے دوران کہا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے، جب کہ ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ اس نے کم از کم 70 لاشیں دیکھی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی جن ویڈیوز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسی واقعے کی ہیں، ان میں سوٹ کیسز اور بیگز کے درمیان لاشوں کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں۔

https://x.com/rayyan_misbahur/status/1820868297178706345?t=8yZy-caFxXtEAop5xGzBmQ&s=19

رائٹرز کی جانب سے تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے کہ یہ ویڈیوز میانمار کے ساحلی قصبے مونگ ڈاؤ سے کچھ فاصلے پر واقع علاقے کی ہیں۔ تاہم اب تک آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے کہ یہ ویڈیوز کب بنائی گئیں۔

حملے کا احوال

اس واقعے کے ایک عینی شاہد پینتیس سالہ محمد الیاس نے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کی حاملہ بیوی اور دو سالہ بیٹی بھی شامل تھیں۔

بنگلہ دیش میں مہاجرین کے ایک کیمپ میں روئٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی بیوی اور بیٹی ان کے ساتھ ساحل کے قریب کھڑی تھیں کہ ڈرون حملہ شروع ہو گیا۔

اس حملے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”میں نے شیلنگ کی زوردار آواز کئی بار سنی۔‘‘

الیاس نے بتایا کہ وہ حملے کے دوران اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے خیال سے زمین پر لیٹ گئے تھے اور جب وہ دوبارہ اٹھے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیوی اور بیٹی شدید زخمی تھیں، جب کہ کئی رشتہ دار ہلاک ہو چکے تھے۔

بنگلہ دیش میں اب مہاجرین کے ایک کمیپ میں موجود اٹھائیس سالہ شمس الدین ان کی بیوی اور نومولود بیٹا بھی اس حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔

شمس الدین نے روئٹرز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ حملے کے بعد انہوں نے ”زخمی افراد کو درد سے چیختے سنا۔‘‘

حملے میں بچ جانے والے ایک سترہ سالہ نوجوان نے نیوز ایجنسی دی ایسوسی ایٹڈ پریس سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حملہ تقریباﹰ شام چھ بجے کیا گیا تھا، جس وقت وہ ہزار کے قریب باشندوں کے ساتھ ساحل کے قریب کشتی کا انتظار کر رہا تھا۔

بنگلہ دیش میں مہاجرین کے ایک کیمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈرون گرتے ہی کئی لوگوں دریا میں کود گئے تھے اور ان کے ندازے کے مطابق اس حملے میں تقریباﹰ 150 افراد ہلاک ہوئے ہوں گے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے، جبکہ اس تصدیق اس حملے کی تصدیق ایک سینئر سفارت کار کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔

اقوام میں متحدہ میں کینیڈا کے موجودہ سفیر اور میانمار کے لیے سابق خصوصی ایلچی باب رے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بدھ کو ایک پوسٹ میں لکھا، ”افسوس کے ساتھ بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر سینکڑوں روہنگیا باشندوں کی ہلاکت کی اطلاعات درست ہیں۔‘‘

روہنگیا کے خلاف کریک ڈاؤن

میانمار میں بدھ مت اکثریت میں ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کو ظلم و ستم اور تشدد کا سامنا ہے۔ سن 2017 میں فوج کی جانب سے ایک کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد 730,000 روہنگیا ملک سے فرار ہو گے تھے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ کریک ڈاؤن ان کی نسل کشی کے ارادے سے ہی شروع کیا گیا تھا۔

میانمار کی ریاست رخائن میں مسلمان روہنگیا باشندوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں وہاں باغی گروپ اراکان آرمی کو ملنے والی کامیابیوں کے بعد سے روہگنیا یہ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

جمعے کو طبی امداد فراہم کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈز نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ ہفتے اس کی جانب سے بنگلہ دیش پہنچنے والے ایسے روہنگیا باشندوں کی بڑی تعداد کا علاج کیا گیا ہے، جو تشدد کی وجہ سے زخمی ہوئے۔

اس ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مریضوں نے بتایا کہ انہوں نے لوگوں پر بمباری ہوتے ہوئے دیکھی اور لوگوں کو بنگلہ دیش جانے کے لیے کشتیاں تلاش کرتے دیکھا۔ ان میں سے کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے دریا کنارے سینکڑوں لاشیں پڑی دیکھیں۔

مہاجرین کی کشتی غرقاب ہونے کی اطلاعات

عینی شاہدین اور بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق پیر کو بنگلہ دیش جانے کے دوران روہنگیا باشندوں کی کشتیاں دریائے ناف میں ڈوب گئی تھیں، جن میں موجود درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دریں اثنا مہاجرین کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے محکمے کے ترجمان نے کہا تھا کہ ان کا ادارہ ”خلیج بنگال میں دو کشتیوں کے غرقاب ہونے سے مہاجرین کی ہلاکتوں کے بارے میں با خبر ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں مونگ ڈاؤ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں لیکن ان ہلاکتوں کی تعداد اور ان کا سبب بننے والے حالات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں