اسرائیل کا خان یونس سے مزید فلسطینیوں کو انخلا کا حکم

یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) اسرائیلی فوج کا تازہ حکم وسطی غزہ میں ایک اسکول پر حملے میں کم از کم 80 افراد کی ہلاکت کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے میں حماس اور اسلامی جہاد کے کم از کم 19 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے آج اتوار کو علی الصبح جنوبی غزہ میں خان یونس سے مزید فلسطینیوں کو فوری طور پر علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ حکم ہفتے کو وسطی غزہ میں ایک اسکول میں قائم ایک عارضی پناہ گاہ پرفضائی حملے میں کم از کم 80 فلسطینیوں کی ہلاکت اور 50 کے زخمی ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے تبین نامی اسکول کی عمارت میں قائم عسکریت پسند تنظیم حماس کی ایک کمانڈ پوسٹ کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم 19 جنگجو مارے گئے۔

اسرائیلی فوج گزشتہ دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران بارہا بڑے پیمانے پر غزہ کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں کو انخلاء کا حکم دیتی آئی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے ان علاقوں کو پہلے حماس سے خالی کرا لیا گیا تھا لیکن اب اس کے جنگجو وہاں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

’کوئی جگہ محفوظ نہیں‘

غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی کی اکثریت اس جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے، اور اس میں سے بھی زیادہ تر کو کئی بار بے گھر ہونا پڑا ہے۔ لاکھوں شہری عارضی خیموں اور اس طرح کے اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جیسے اسکول کو ہفتے کے روز اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ ان فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی محصور ساحلی پٹی میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔

اسرائیل فوج کی جانب سے انخلا کے تازہ ترین احکامات خان یونس کے جن علاقوں پر لاگو ہوتے ہیں، ان میں اسرائیل کے انسانی ہمدری کی بنیادوں پر اعلان کردہ ‘محفوظ علاقے‘ بھی شامل ہیں۔ اسرئیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے عسکریت پسند عام شہریوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں اور رہائشی علاقوں سے حملے کر رہے ہیں۔ غزہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر خان یونس اس سال کے شروع میں ایک بڑے اور طویل فضائی اور زمینی حملے کے دوران بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہوا تھا۔

پچھلے ہفتے اس شہر سے اسرئیلی فوج کی جانب سے انخلا کے پہلے حکم کے بعد دسیوں ہزار افراد کو دوبارہ اپنے علاقے خالی کر کے بھاگنا پڑا۔ پناہ کی تلاش میں وہاں سے بھاگنے والی تین بچوں کی بیوہ ماں امل ابو یحییٰ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اب کہاں جانا ہے۔ اس 42 سالہ خاتون کا شوہر مارچ میں ان کے پڑوسیوں کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔ امل جون میں اپنے بری طرح تباہ شدہ گھر واپس لوٹی تھیں لیکن اب ایک بار پھر جان بچانے کے لیے انہیں بھاگنا پڑا۔ انہوں نے کہا، ”یہ میری چوتھی نقل مکانی ہے۔‘‘

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40,000 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ امدادی گروپ علاقے میں خوفناک انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جب کہ بین الاقوامی ماہرین نے وہاں قحط سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو اس وقت ہوا تھا۔ جب حماس کے جنوبی اسرائیل کے سرحدی علاقوں پر حملے میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ سے تر عام شہری تھے۔ تب حماس کے جنگجو واپسی پر تقریباً 250 افراد کو اغوا کر کے اپنے ہمراہ غزہ بھی لے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں