پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ خطے میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے جبکہ امریکہ نے پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔
ان کے مطابق اگر اس جنگ کی آماجگاہ افغانستان تھا تو اس جنگ کی آماجگاہ پاکستان ہے، اس لیے پاکستان کو نچوڑا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
اتوار کو پشاور میں تاجر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے، سب کو یکجا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں موجود لوگ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں، یہ جعلی نمائندے بن کر بیٹھے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چین کو کہا جا رہا ہے کہ اپ بے فکر رہیں آپ ہمیں سکیورٹی کا نظام حوالہ کریں اور اس کے لیے آپ ہمیں پیسے دیا کریں۔ ادھر سے سکیورٹی کے نام پر مغرب سے اور امریکہ سے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے پیسے لیے جا رہے ہیں اور ادھر سے اب دوسری طرف ایک نئی سکیورٹی کے نام پر پیسے لینے کے حیلے ڈھونڈنے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق ’ہم کدھر پھنسے ہوئے ہیں، ہمارا تو ایک رخ ہے ہی نہیں۔‘
جب معلوم ہی نہ ہو کہ حکومت کس کی ہے تو لوگوں کو کیا ملے گا، فرنٹ پر کوئی اور لوگ ہیں، ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جب کہ ان کے پیچھے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے، ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا اور خطے میں اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، ہمارے نظام میں خامی ہے، ہماری پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کے نام پر لوگ ضرور بیٹھے ہوئے ہیں لیکن وہ عوام کے جعلی حقیقی نمائندے نہیں بلکہ جعلی نمائندے ہیں۔ اور جس پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہوں گے وہ عوام کے مسائل کبھی حل نہیں کرسکتی۔
انھوں نے کہا کہ ’معیشت اس قدر گرچکی ہے کہ اس کو دوبارہ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔‘