طالبان کی حکومت کے تین سال: سفارتی کامیابیاں اور مضبوط گرفت

کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) افغانستان میں 2021ء میں طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آئے رواں ہفتے ٹھیک تین برس ہو جائیں گے۔ کابل میں طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر ابھی تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا مگر طالبان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہی ہوئی ہے۔

تین برس قبل 2021ء میں اگست کے مہینے کے وسط میں افغانستان سے رخصت ہوتے ہوئے آخری مغربی فوجی دستوں کی روانگی کے دنوں میں کابل پر قبضے کے ساتھ طالبان کا ہندوکش کی اس ریاست میں دوسری مرتبہ اقتدار میں آنا ممکن ہو گیا تھا۔

پچھلے تین سال میں ایسا تو نہ ہو سکا کہ کوئی ایک بھی ملک افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیتا، تاہم یہ ضرور ہوا کہ اس عرصے میں طالبان کو متعدد سفارتی کامیابیاں ملیں اور ملک میں سخت اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کے باوجود ان کی اقتدار پر گرفت بھی مضبوط ہوئی ہے۔

افغان طالبان پر کی جانے والی تنقید کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی ہے، خواتین کو کام کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی بھی جگہ جگہ نفی کی جاتی ہے۔

شدید ہوتے ہوئے بحران کے چند کلیدی پہلو

بیرونی دنیا ہندوکش کی اس ریاست میں طالبان کے طرز حکومت اور خواتین سے سلوک کو جس بھی نظر سے دیکھے، گزشتہ تین برسوں کے دوران بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کو ساتھ لے کر چلنے کی کوششوں میں ماضی کی نسبت بہتری ہوئی ہے۔

اس کی وجہ وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں کی انتہائی غیر تسلی بخش صورت حال کے باعث شدید ہوتا ہوا بحران بھی ہے اور دہشت گردی کا وہ خطرہ بھی، جس کے پیش نظر طالبان کے ساتھ رابطوں کو ترجیح دی گئی۔

بہ الفاظ دیگر معاملہ کابل میں طالبان کی حکومت کو غیر سرکاری طور پر بھی تسلیم کرنے کا نہیں بلکہ اس ملک اور اس کے عوام کی صورت حال کو خراب تر ہونے سے بچانے کا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 15 اگست 2021ء کے بعد کے تین برسوں میں جس ایک پیش رفت کو طالبان حکومت کی مقابلتاﹰ سب سے بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے، وہ کابل حکومت کی پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت تھی۔ یہ مذاکرات اسی سال جون میں قطر میں ہوئے تھے اور ان میں اقتصادی امور کے ساتھ ساتھ انسداد منشیات کے موضوع پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

افغان طالبان اس پیش رفت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

قطر میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے والے بین الاقوامی مذاکرات میں افغان وفد کی قیادت کابل میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کی تھی۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ قطر میں منعقدہ بین الاقوامی اجلاس میں کابل حکومت کی شرکت اس بات کا کھلا ثبوت تھی کہ ”افغانستان اپنے الگ تھلگ ہو کر رہ جانے اور اپنی تنہائی سے نکل آیا ہے۔‘‘

ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا، ”ہم مثبت اجلاسوں اور ملاقاتوں کے حق میں ہیں، اس شرط پر کہ افغانستان کی مخصوص صورت حال کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔‘‘

اقوام متحدہ کی طرف سے طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر عائد کردہ پابندیوں کو ”صنفی امتیازی سلوک‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جون میں قطر میں ہونے والی بات چیت صرف اس وجہ سے ممکن ہو سکی کہ کابل حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک خاص اتفاق رائے پر آمادہ کر لیا تھا۔

یہ اتفاق رائے یہ تھا کہ قطر مذاکرات میں سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افغان گروپوں میں سے کوئی شریک نہیں ہو گا۔

بین الاقوامی برادری کی ’سمارٹ اپروچ‘

برسوں پہلے افغان خانہ جنگی کے دور کے ایک اہم جنگی رہنما گلبدین حکمت یار بھی تھے۔ ان کے پوتے عبیداللہ باہیر اب ایک افغان ماہر تعلیم ہیں۔ باہیر کے بقول بین الاقوامی برادری نے کابل میں طالبان انتظامیہ کے ساتھ رابطے اور اپنا اشتراک عمل بتدریج بہتر بنانے کیے لیے ایک ‘اسمارٹ اپروچ‘ سے کام لیا۔

عبیداللہ باہیر نے اے ایف پی کو بتایا، ”بین الاقوامی برادری افغان خواتین کے حقوق کی نفی سے متعلق مسئلے کو خود تو حل نہیں کر سکتی، لیکن وہ یہ کر سکتی ہے کہ ایک ایسا ماحول قائم کیا جائے، جس میں افغان معیشت آہستہ آہستہ مستحکم ہوتی جائے۔‘‘

عبیداللہ باہیر کے الفاظ میں، ”جب اقتصادی استحکام آئے گا، تو ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاسی سطح پر بھی بند دروازے بتدریج کھلنا شروع ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ کابل میں طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے سے بالآخر افغانستان میں موجودہ صورت حال کافی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست

افغان طالبان کی مسلسل کوشش ہے کہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست موجودہ کابل حکومت کے حوالے کر دی جائے۔ اس کے لیے طالبان علاقائی سطح پر بھی اپنے رابطے بہتر بنا رہے ہیں۔

طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق، ”اس وقت ہمارے اپنی ہمسایہ ریاستوں، خطے کے ممالک اور مسلم اکثریتی ملکوں کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں اور 40 کے قریب ممالک ایسے ہیں، جن کے کابل میں قائم سفارت خانے یا قونصل خانے آج بھی کام کر رہے ہیں۔‘‘

کابل میں مغربی ممالک کے سفارت خانے گزشتہ تین برسوں سے بند ہیں۔ لیکن پاکستان، چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی جمہوریائیں ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ عملاﹰ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔

اس کے علاوہ روس بھی ان تیاریوں میں ہے کہ افغان طالبان کا نام ایک تنظیم کے طور پر دہشت گرد تنظیموں کی روسی فہرست سے خارج کر دیا جائے جبکہ چین نے بھی اگست 2021ء کے بعد سے پہلی مرتبہ کابل میں اپنا ایک سفیر تعینات کر دیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں