یوکرین کی روس میں پیش قدمی جاری، 74 گاؤں پر قبضہ، 100 روسی فوجی گرفتار

کییف (ڈیلی اردو/بی بی سی) یورکین کی فوج کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسنڈر سیرسکی نے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو یہ خبر دی ہے کہ آج کے دن روس افواج کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران انھوں نے 100 روسی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

ویڈیو لنک کے پر یوکرین کے صدر سے بات کرتے ہوئے فوجی کمانڈر سیرسکی نے صدر کو بتایا کہ یوکرین کی افواج نے آج روس کے کرسک علاقے میں فوجی کارروائی کے دوران بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میں اپنی فوج کے اس آپریشن اور کارروائی میں شامل ہر شخص کا شکر گزار ہوں، اب اس موجودہ صورتحال میں ہمارے لوگوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوگی۔‘

صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین کی افواج روس کے کرسک کے علاقے میں مزید پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں یوکرین کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ فورسز آج مختلف سمتوں میں ایک سے دو کلومیٹر آگے بڑھ چکی ہیں۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی دستے روس کے کرسک خطے میں داخل ہونے کے بعد مزید پیشقدمی کا سلسلہ جاری ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے منگل کو کہا تھا کہ اب تک ان کی فوج روس کے 74 قصبوں اور گاؤں پر قبضہ کر چکی ہے۔ صدر کے فوجی ترجمان کے مطابق یوکرین نے روس کے کل 1000 سکوائر کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ اس نے رات کو یوکرین کے اپنی سرزمین پر اڑنے والے 117 ڈرونز مار گرائے ہیں۔

بی بی سی آزادانہ طور پر یوکرین کے صدر کے اس بیان اور دعوی کی تصدیق نہیں کر سکی اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یوکرین کی فوج نے کتنے روسی علاقے پر قبضہ کیا ہے۔

بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ خطے کی صورتحال کا دارومدار اب اس بات پر ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی ان حالیہ کارروائیوں کا جواب کس انداز میں دیا جاتا ہے۔

فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ ’جب اس جنگ میں ماسکو کے لیے حالات خراب ہوئے، یا جب بھی مغربی دُنیا نے یوکرین کو زیادہ طاقتور ہتھیار فراہم کرنے پر غور کیا، تو صدر ولادیمر پوتن سب کو یہ بات یاد دلایا کرتے تھے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یوکرین کی روس میں اچانک دراندازی 1941 کے بعد پہلی بار ہے جب کسی غیر ملکی فوج نے اس ملک پر حملہ کیا ہے لیکن یہ ماسکو پر پیش قدمی نہیں ہے۔ یوکرین نے واضح کیا ہے کہ یہ صرف ایک عارضی اقدام ہے۔‘

فرینک کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ صدر زیلنسکی کی ایک چال ہے جس کا مقصد جنگ اور جنگی حالات کو روسیوں کے سامنے لانا اور امن معاہدے پر بات چیت کا وقت آنے پر اپنے ملک کو بہتر پوزیشن میں لانا ہے۔

پوتن نے ’مناسب وقت پر جواب‘ دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ نیٹو کی ریڈ لائنز کیا ہیں اور فی الحال وہ ممکنہ طور پر یوکرین کو سزا یا جواب دینے اور ممکنہ طور پر اس کے مغربی اتحادیوں پر سائبر حملے تیز کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔

یوکرین کی فوج کی طرف سے مسلسل دو ہفتوں سے روس کے خلاف جاری فوجی پیشقدمی کے بعد اب روس کے ایک اور خطے نے بھی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔

روس کے سرحدی علاقے بیلگوروڈ کے گورنر نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ یوں یہ روس کا دوسرا خطہ ہے جہاں یوکرین کے خطے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔

بیلگوروڈ کہاں واقع ہے؟

بیلگوروڈ مغربی روس کا حصہ ہے جو کہ روس-یوکرین سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ کرسک کے قریب کا علاقہ بنتا ہے جہاں سب سے پہلے یوکرین کے فوجی روس کی حدود میں داخل ہوئے اور پھر آگے بڑھتے چلے گئے۔

روس نے اس علاقے سے شہریوں کا انخلا شروع کر رکھا ہے۔ انھوں نے سرحد پر ’دشمن ملک کے حملے‘ کو اس کا جواز بتایا ہے۔

اس متعلق ابھی تک کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ بلیگورڈ میں یوکرین کی افواج داخل ہو چکی ہیں یا نہیں۔

بیلگوروڈ کے گورنر نے ٹیلیگرام پر لکھا کہ اس خطے میں صورتحال بہت مشکل اور تناؤ والی ہے۔ ان کے مطابق یوکرین کے حملے میں مکان تباہ ہوئے ہیں جبکہ ان حملوں میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اور متعدد لوگ زخمی بھی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں