حماس قطر میں ہونے والے امن مذاکرات میں شریک نہیں ہو گا

غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/اے ایف پی) غزہ میں فائربندی اور خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے مقصد سے دوحہ میں بات چیت کا ایک اہم دور جمعرات سے شروع ہو رہا ہے۔ حماس نے کہا کہ وہ مذاکرات میں حصہ نہیں لے گا۔

جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق سی آئی اے کے چیف ولیئم برنز، قطری وزیر اعظم عبد الرحمان الثانی اور مصر کے انٹلیجنس چیف عباس کامل پہلے کی طرح اس بار بھی مذاکرات میں حصہ لیں گے۔

اسرائیلی انٹیلیجنس سروس موساد کے سربراہ ڈیوڈ برینا کی بھی اس میٹنگ میں شرکت متوقع ہے۔

چونکہ اسرائیل اور فلسطینی شدت پسند تنظیم حماس ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت نہیں کر رہے ہیں اس لیے قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں فائر بندی کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔

حماس نے کہا کہ وہ اس مذاکرات میں شامل نہیں ہو گا۔ لیکن حماس کی خواہش ہے کہ اسے اس میٹنگ کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔

مذاکرات کی اہمیت

جمعرات کو ہونے والی اس بات چیت کو فائربندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے امکانات کے ل‍حاظ سے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے صورت میں اسرائیل کے خلاف ایران کا ممکنہ حملہ رک سکتا ہے اور ایک بڑی جنگ سے بچا جا سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثوں نے اسرائیل اور حماس کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، جس کا مقصد لڑائی ختم کرنا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے بقول اب تک اس جنگ میں تقریباً 40 ہزار افراد جان سے جا چکے ہیں۔

اب تک غزہ میں نومبر 2023 میں صرف ایک ہفتے تک فائر بندی ہوئی تھی، اس کے بعد سے ثالثی کی کوششیں بار بار تعطل کا شکار رہیں۔ اس وقت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔

حماس کے ایک عہدیدار نے شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ”ثالثوں کے ساتھ مشورے جاری ہیں اور اس نے مزید مذاکرات کرنے کے بجائے اس تجویز کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا جو امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو پیش کی تھی‘‘۔

جو بائیڈن نے اس وقت کہا تھا کہ مرحلہ وار منصوبہ ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کی مکمل فائر بندی، غزہ سے کچھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور محصور علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں اضافے سے شروع ہوگا جبکہ فریقین لڑائی کے مستقل خاتمے پر بات چیت کریں گے۔

علاقائی کشیدگی میں اضافے کے درمیان بات چیت

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ہم منصبوں کو بتایا ہے، ”یہ فائر بندی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہمیں اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور یہ کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں‘‘۔

ثالثی کی یہ تازہ کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اور فائربندی کے مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس قتل کا الزام ایران اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل پر لگایا ہے، جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تہران اور خطے میں اس کے حمایت یافتہ گروہوں نے اس کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے۔

ایران کا ردعمل

مغربی رہنماؤں نے تہران پر زور دیا ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریز کرے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران مغربی ممالک کے اس مطالبے کو مسترد کرتا ہے، ”وہ اس حکومت کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرے، جس نے اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امید ظاہر کی تھی کہ جوابی کارروائی غزہ میں ممکنہ فائر بندی کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔

اس دوران اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ”ان کا ملک ایرانی حکومت اور اس کے دہشت گرد آلہ کاروں کی نفرت سے بھری دھمکیوں کی وجہ سے ہائی الرٹ پر ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں