کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین سے پانچ افراد کی بجلی کی کھمبوں سے بندھی لاشیں ملی ہیں۔
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر دالبندین کے ایڈیشنل ایس ایچ او عبدالحکیم نے لاشوں کی برآمدگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ تمام افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچوں افراد کو قتل کرنے بعد ان کی لاشوں کو شہر سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر ڈگری کالج کے نزدیک بجلی کے کھمبوں سے باندھا گیا تھا۔
ایڈیشنل ایس ایچ او کے مطابق ان افراد کو اندازاً دس سے پندرہ گھنٹے پہلے کہیں اور قتل کر کے ان کی لاشوں کو ڈگری کالج کے قریب منتقل کیا گیا ہے۔
لاشوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
عبدلحکیم کا کہنا تھا کہ پانچوں افراد کو سینے میں پانچ سے سات گولیاں ماری گئی ہیں۔
پولیس کے مطابق لاشوں کی فی الحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ مارے جانے والے افراد کی عمریں اندازاً 22 سال سے 27 سال کے درمیان ہے۔
ایڈیشنل ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ واقعے کی مختلف پہلوئوں سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔
دالبندین شہر میں اپنی نوعیت کا پہلا واقع
بلوچستان کے سرحدی ضلع چاغی کا ہیڈ کوارٹر دالبندین صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 350 کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر واقع ہے۔
مقامی حکام کے مطابق دالبندین اور اس کے نواحی علاقوں سے ماضی میں بھی لاشیں برآمد ہوتی رہی ہیں تاہم بیک وقت پانچ افراد کو مارنے کے بعد بجلی کے کھمبوں سے ان کی لاشوں کو باندھنے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
شدت پسند تنظیم جیش العدل، جو سرحد پار ایران میں بھی کارروائیاں کرتی آئی ہے، ضلع چاغی اور اس سے متصل سرحدی ضلع واشک میں کافی سرگرم ہے۔
ماضی میں جیش العدل جانب سے اس نوعیت کی کاروائیوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کی جاتی رہی ہیں۔ تاحال اس واقعے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
دوسری جانب مارے جانے والے افراد ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
اس ویڈیو میں ایک شخص بلوچی زبان میں جبکہ باقی چار پشتو میں بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو اپنا تعلق افغانستان کے صوبہ ہلمند سے بتا رہے ہیں۔
ویڈیو میں دکھائی دینے والے پانچوں افراد جیش العدل کے کچھ عرصہ قبل مارے گئے رہنما مراد نوتیزئی عرف طارق کے قتل کا اعتراف کر رہے ہیں۔
تاہم آزاد ذرائع اور پاکستانی حکام کی جانب سے تاحال اس ویڈیو کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔