قصور میں نجی اسکول کی پرنسپل اور ملازمہ پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پنجاب کے شہر قصور میں شہریوں کے احتجاج کے بعد پولیس نے دو خواتین کے خلاف قرآن کے اوراق جلانے کے الزام میں توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمے کے مدعی علاقے کی مسجد کے امام ہیں اور جن خواتین پر توہینِ قرآن کا الزام لگایا گیا ہے ان میں ایک نجی اسکول کی پرنسپل اور دوسری ان کی گھریلو ملازمہ ہیں۔

حکام کے مطابق پولیس نے بدھ کو ایک ایف آئی آر میں نامزد ملازمہ کو حراست میں لے لیا ہے جب کہ اسکول پرنسپل کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

زیرِ حراست ملزمہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرکے جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل قصور بھجوادیا گیا ہے۔

پاکستان میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کی بے حرمتی کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 بی کے تحت قانونی کارروائی کی جاتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق اس واقعے کے بعد نجی اسکول کو سیل کردیا گیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔

ضلع قصور کے تھانہ مصطفیٰ آباد میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مدعی کاشف علی، جامع مسجد مریم (رائے کلاں) کے امام ہیں جبکہ الزام لگانے والا شخص نادر علی اسکول پرنسپل کے خاوند کا ڈرائیور اور گواہ قاسم ان کا مالی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق المشال اسکول بدرپور جس عمارت میں قائم ہے اسی عمارت میں پرنسپل کے خاوند جنید خان کا ایک کاروباری دفتر بھی ہے۔ نادر علی بطور ڈرائیور اسی دفتر میں کام کرتا ہے جبکہ قاسم اسکول میں مالی ہے۔

مدعی امام مسجد کاشف علی کے مطابق ڈرائیو نادر علی نے انہیں مسجد میں آکر قرآن کے جلے ہوئے نسخوں کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر دکھائیں اور الزام لگایا کہ یہ واقعہ المشال اسکول میں ہوا ہے۔

نادر علی کا کہنا ہے کہ اس نے مالی قاسم کی موجودگی میں یہ ویڈیوز بنائیں اور ان جلے ہوئے نسخوں کو جمع کرکے پارک کے ایک کونے میں گیراج کے قریب دفن کردیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق نادر علی کے استفسار پر مالی قاسم کا کہنا تھا کہ قرآن کے یہ اوراق پرنسپل کی ملازمہ نے ان کے کہنے پر جلائے تھے اور مبینہ طور پر ملازمہ نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ نجی اسکول کی پرنسپل کے شوہر نے فون پر افسران سے رابطہ کرکے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے کسی کو قرآن کے اوراق جلانے کا نہیں کہا اور جب یہ واقعہ پیش آیا وہ اپنی فیملی کے ساتھ کاغان ناران کی سیر کو گئے ہوئے تھے۔

علاقے کی صورتِ حال کشیدہ

گزشتہ ہفتے دو خواتین کے خلاف توہینِ مذہب کے الزام کی خبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے گئے جس کے بعد ملحقہ دیہات بدر پور، رائے کلاں اور حویلیاں کے سینکڑوں لوگ اسکول کی عمارت کے باہر جمع ہوگئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نعرے بازی اور خواتین کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتی رہی۔

کچھ لوگوں نے جلے ہوئے اوراق کی تصاویر اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیں جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور علاقے میں جلاؤ گھیراؤ کی صورتِ حال پیدا ہونے لگی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عیسیٰ خان سکھیرا پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقعے پر پہنچ گئے۔ مظاہرین کے ساتھ بات چیت کی جس کے بعد لوگوں نے احتجاج ختم کر دیا۔

بعدازاں پولیس نے امام مسجد کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرلی۔

مقدمے کے مدعی امام مسجد کاشف علی کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق اہلسنت مسلک اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے ہے جب کہ توہینِ مذہب کے الزام کی ایف آئی آر میں نامزد اسکول پرنسپل اہلِ تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کاشف علی نے دعویٰ کیا کہ اسکول پرنسپل کی گھریلو ملازمہ کو ہم نے وعدہ معاف گواہ بنانا چاہا لیکن تھانے آکر وہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئیں۔

مدعی کے بقول ملازمہ نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ جو اوراق جلائے گئے وہ اسکول کی ردی تھے جس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ اب ملازمہ کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی بجائے ایف آئی آر میں ملزم نامزد کیا جائے گا۔

کاشف علی نے بتایا کہ پولیس نے ملازمہ کو حراست میں لیا ہوا ہے جب کہ اسکول پرنسپل اور ان کا خاوند واقعہ کے بعد سے فرار ہیں۔

اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد عیسیٰ خان سکھیرا نے ایس پی انویسٹی گیشن محمد طاہر علی کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس میں ایڈیشنل ایس پی غازی عمر فاروق اور ڈی ایس پی صدر خالد اسلم شامل ہیں۔

پولیس ترجمان کے مطابق امن و امان کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تاحکم ثانی اسکول کو سیل کردیا گیا ہے۔

حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے کیس بڑی تعداد میں سامنے آئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں گزشتہ 10 روز میں چار خواتین کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں