یروشلم (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے تک پہنچنے کے لیے دوحہ کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے دوران گذشتہ 48 گھنٹے ڈرامائی رہے ہیں۔
قطر، مصر اور امریکہ کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں تینوں فریقین نے کہا ہے کہ دوحہ میں گذشتہ دو دنوں کے دوران ان کی حکومتوں کے اعلیٰ عہدیداروں نے جنگ کو ختم کرنے کے مقصد سے ثالث کے طور پر بات چیت میں حصہ لیا ہے۔
اس بات چیت کا مقصد غزہ میں جنگ بندی معاہدہ، یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی ہے۔ مشترکہ بیان کے مطابق یہ مذاکرات ’سنجیدہ اور تعمیری رہے اور مثبت ماحول میں ہوئے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’دوحہ، امریکہ، قطر اور مصر کی حمایت سے دونوں فریقین کے بیچ دشمنی کو کم کرنے کے لیے ایک تجویز پیش کی گئی ہے۔‘
’یہ تجویز پچھلے ہفتے کے دوران ہونے والے معاہدے کے نکات پر مشتمل ہے اور فریقین کے بیچ خلا کو ایسے پُر کرتی ہے جس سے معاہدے پر تیزی سے عمل درآمد ممکن ہو سکے۔‘
تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے ان مذاکرات میں خاص بات وہ چند منٹ ہیں جس دوران اسرائیلی وفد کو دوحہ کے ہوٹل میں مزید ایک رات قیام کرنے پر راضی کیا گیا تاکہ اگلے دن مذاکرات مکمل کیے جا سکیں۔
اسرائیلی وفد جانتا تھا کہ بیروت میں حزب اللہ کے سینئیر کمانڈر فواد شکر اور تہران میں حماس کے اہم رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اس خطے میں اسرائیل سے باہر کہیں بھی رہنا ان کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہنیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہی ہاتھ تھا۔ ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے قبل اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے اہم رہنما فواد شکر کو بھی ہلاک کیا تھا۔
اسرائیلی وفد کا ہوٹل کے بجائے جہاز میں رات گزارنے کا فیصلہ
ثالثوں کے دباؤ کے بعد وفد نے ایک اور رات قیام کرنے کا فیصلہ کیا تاہم سلامتی کے خطرات ان کے لیے اتنی تشویش کا باعث تھے کہ انھوں نے اس جہاز میں بھی رات گزارنے کے امکان کا جائزہ لیا جس پر وہ اسرائیل سے دوحہ پہنچے تھے۔
اسرائیلی وفد نے اسرائیل کی نجی سکیورٹی اور جہاز میں ساتھ لائے گئے خاص ہتھیاروں پر انحصار کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس امکان کا بھی جائزہ لیا کہ اگر وہ طیارے میں رات گزارتے ہیں تو قطری سکیورٹی اہلکار کس طرح بیرونی طور پر طیارے کی حفاظت کریں گے۔
اسرائیلی وفد میں موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا اور جنرل سکیورٹی سروس کے سربراہ رونن بار سمیت اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز کے اعلیٰ ترین رہنما شامل تھے۔
تاہم ایسا ہوا نہیں۔ یدیوتھ احرونوت اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق وفد نے رات کسی اور جگہ گزاری۔
ایران کو قطری وزیراعظم کی فون کال
اسرائیلی اور مغربی پریس اور میڈیا رپورٹس کے مطابق قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے ایرانی قیادت سے فون پر بات کی اور اسرائیل پر کسی بھی حملے کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ’مذاکرات میں پیش رفت دیکھی گئی ہے۔‘
یدیوتھ احرونوت اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس فون کال کی وجہ سے حزب اللہ اور ایران نے مذاکراتی دور کے نتائج واضح ہونے تک اسرائیل کو نشانہ بنانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس رات اسرائیل کسی ایک فریق کی جانب سے فوری حملے کی توقع کر رہا تھا۔
’قابل ذکر پیش رفت‘
’قابل ذکر پیش رفت‘ ایک ایسا جملہ ہے جو کئی مہینوں تک قطر اور مصر کے زیر اہتمام ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے دوران اکثر دہرایا جاتا رہا ہے اور مذاکرات کا تقریباً ہر وہ دور جس میں پیش رفت کو قابل ذکر بتایا جاتا تھا، ناکامی پر ختم ہوا۔
بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی شہریوں کو ان مذاکرات سے زیادہ امیدیں نہیں وابستہ کرنی چاہییں کیونکہ مبصرین کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان بنیادی اختلافات اب بھی بہت بڑے ہیں اور حل نہیں کیے جا سکتے۔
اسرائیلی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا اندازہ ہے کہ اس ’آخری موقع‘ سے فائدہ نہ اٹھانے کی قیمت غزہ کی پٹی میں باقی یرغمالیوں کی جانوں کی قیمت ہو سکتی ہے۔
اسرائیل میں یرغمالیوں کے رشتہ داروں اور لواحقین کا خیال ہے کہ یہ ان میں سے کچھ کو زندہ نکالنے کا آخری موقع ہے۔
اسرائیلی فوج نے حال ہی میں حماس کی 75 فیصد عسکری صلاحیتوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور بی بی سی سے بات کرنے والے ذرائع کے مطابق اسرائیل جلد ہی غزہ کی پٹی میں جاری فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر سکتا ہے جس سے سیاسی سطح پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔
تاہم ان ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ مذاکراتی دور کے حمتی نتائج کا انتظار کرنا ہو گا۔
حماس امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے تجویز کردہ منصوبے پر قائم ہے۔
اسرائیل نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم وہ غیر معینہ مدت کے لیے مذاکرات کرنے کے بجائے منصوبے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے اور نیتن یاہو نے اس میں دیگر شرائط بھی شامل کر دی ہیں جو حماس کو قابلِ قبول نہیں ہیں۔
نیٹزارم کوریڈور کا معاملہ
مذاکراتی ٹیموں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دوسرے مرحلے میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ، مذاکرات اور حتمی جنگ بندی کے لیے شرائط شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نتن یاہو نے اسرائیل کو 27 مئی کو تجویز کردہ معاہدے میں نئی رکاوٹیں اور شرائط بھی شامل کر دی ہیں۔
ان میں اسرائیل کا فلاڈیلفیا راہداری کی دستبرداری سے انکار شامل ہے جس کی مصر اور حماس کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی ہے۔ یہ مصر کے ساتھ غزہ کی جنوبی سرحد کے ساتھ ساتھ زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کے بے گھر ہوئے افراد کو شمالی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دینے سے قبل اسرائیل کے زیر کنٹرول نیٹزارم کوریڈور پر ان کی سکریننگ کی جائے۔ یہ نیٹزارم کوریڈور غزہ کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
پہلے دن کا خلاصہ کرتے ہوئے ثالثی کرنے والے ممالک میں سے ایک کے سینیئر اہلکار نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک اہم مسئلے پر پیش رفت ہوئی ہے اور وہ ہے نیٹزرم کوریڈور کا ممکنہ حل۔
اس پیش رفت کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں ہیں۔
یدیوتھ احرونوت اخبار کے مطابق اس معاہدے کو لے کر نیتن یاہو کو جس چیز کی فکر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’غزہ میں جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔‘
بہت سی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ لبنان میں امن اور ایران میں استحکام کا باعث بنے گا اور اسرائیلی فوج کو دس ماہ سے زائد عرصے سے جاری تھکا دینے والی جنگ کے بعد خود کو دوبارہ تعمیر کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
نتن یاہو اسرائیلی افواج کو غزہ میں ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جنگ جاری رہے
ہیبریو یونیورسٹی کے ٹرومین انسٹی ٹیوٹ کے محقق رونی شیکڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دوحہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ حماس جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا انخلا چاہتا ہے، جبکہ دوسری طرف نتن یاہو اسرائیلی افواج کو غزہ میں ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جنگ جاری رہے۔
شیکڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ اس حوالے سے بڑے خلا ہیں اور اگر انھیں حل کر لیا جاتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بات چیت میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
شیکڈ کا کہنا ہے کہ فلاڈیلفیا اور نیٹزارم کوریڈور سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا اسرائیل کے لیے ایک ’بنیادی مسئلہ‘ ہے۔
اسرائیلی محقق کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیلی عوام کے نقطۂ نظر سے جو چیز سب سے اہم ہے وہ یرغمالیوں کی واپسی ہے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے انھیں بھلا دیا ہے۔‘