جرمنی میں گرجا گھر اپنی اہمیت کیوں کھو رہے ہیں؟

برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ ہر سال اپنے لاکھوں ممبران سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جرمنی میں بھی چرچ چھوڑنے والے شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جرمن شہریوں کی چرچ سے دوری کے اسباب کیا ہیں؟

جرمنی روایتی اور بنیادی طور پر ایک مسیحی ملک ہے۔ لیکن حالیہ برسوں کے دوران اس ملک میں حیرت انگیز طور پر نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ یہاں تک کہ ہر دوسرا جرمن اب کیتھولک یا پروٹسٹنٹ چرچ کو چھوڑ چکا ہے۔

اس وقت 84 ملین سے زیادہ جرمن شہریوں میں سے 50 فیصد سے زائد افراد مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سن 1990 میں، جب پہلی بار مغربی اور مشرقی جرمنی میں مسیحیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی تھی، تب کل آبادی کا 70 فیصد سے زائد حصہ مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ اس وقت تقریباً 80 ملین جرمنوں میں سے 35.8 فیصد کیتھولک اور 36.9 فیصد پروٹسٹنٹ تھے۔ یہ مجموعی طور پر 72.7 فیصد بنتے تھے۔

تقریباً دس برس بعد یعنی سن 2001 میں یہ تعداد 64 فیصد تھی۔ مزید دس سال بعد یعنی سن 2011 میں پہلی بار یہ تعداد 60 فیصد سے نیچے آ گئی۔ اب 80.3 ملین جرمنوں میں سے صرف 59.9 فیصد مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

جنسی تشدد اور چرچ سے علیحدگی

سن 2023 کے آخر تک تقریباً 20.35 ملین جرمنوں کا تعلق کیتھولک اور تقریباً 18.56 ملین کا پروٹسٹنٹ چرچ سے تھا۔ جرمنی میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ چرچ کو چھوڑ گئے ہیں اور ایسا جزوی طور پر منظر عام پر آنے والے چرچ کے جنسی اسکینڈلز کی وجہ سے ہوا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کی شرح پیدائش میں کمی اور عمر رسیدہ افراد کی اموات میں اضافہ بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔

گرجا گھر اور ٹیکس کا معاملہ

یہ جرمن قانونی نظام کی ایک اہم خصوصیت ہے کہ ریاست کیتھولک اور پروٹسٹنٹ گرجا گھروں کے ارکان کی بالکل درست تعداد بتا سکتی ہے۔ کیونکہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ایک نام نہاد ”چرچ ٹیکس‘‘ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا ٹیکس ہے، جو ان کی اجرت یا ماہانہ آمدنی پر لگایا جاتا ہے اور یہ گرجا گھروں کی مالی اعانت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح دیگر مذاہب کے برعکس ریاست کو درست انداز میں علم ہے کہ ملک میں مسیحیوں کی تعداد کتنی ہے۔

چرچ کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا یہ طریقہ کار کیتھولک یا پروٹسٹنٹ چرچ کو باضابطہ طور پر چھوڑنا بھی ممکن بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن ریاست اور ملک کے بڑے گرجا گھروں کا جرمنی میں دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ تاہم چرچ اور ریاست کے اس قانونی تعلق میں ایک جامع تبدیلی کے بارے میں بحثیں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں۔

اس ”بقائے باہمی‘‘ کی بنیادیں سن 1919 کے ویمار آئین تک واپس جاتی ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں سیکولرائزیشن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر چرچ کی جائیدادوں کو قومیا لیا گیا تھا۔

چرچ کی آمدنی میں کمی

کچھ عرصے سے جرمنی کے بہت سے علاقوں میں ایک اور نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ گرجا گھروں میں آنے والے لوگوں کی کمی کے ساتھ ساتھ چرچ کے ٹیکس میں بھی کمی ہوئی ہے اور اب گرجا گھروں کو پیسے کی بچت کرنا پڑ رہی ہے۔

ملک میں 500 سے زیادہ گرجا گھروں کو اب ختم کر دیا گیا ہے۔ یا تو انہیں منہدم کر دیا گیا ہے یا پھر ان کو اپارٹمنٹس، ریستورانوں اور کمیونٹی ہالز میں بدل دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں