حماس نے اسرائیلی شہر تلِ ابیب میں خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی

غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) حماس نے اسرائیلی شہر تل ابیب میں اتوار کی رات کو ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، اس حملے کے نتیجے میں ایک حملہ آور ہلاک اور ایک شہری زخمی ہوا تھا۔

عسکری گروہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ’فدائی آپریشن‘ فلسطینی اسلامک جہاد گروپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔

حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے فلسطینیوں کا ’قتلِ عام‘ جاری رکھا تو مزید خودکش حملوں کا آغاز کر دیا جائے گا۔

اسرائیلی پولیس اور داخلی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے شن بیت کا کہنا ہے کہ وہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ ایک دہشتگرد حملہ تھا جس کے لیے ایک طاقتور ڈیوائس کا استعمال کیا گیا تھا۔

یہ دھماکہ جنوبی تلِ ابیب میں ہوا تھا اور اس سے ایک گھنٹے قبل ہی امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل پہنچے تھے تاکہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دھماکے سے پہلے ایک ادھیڑ عمر شخص کو کندھے پر ایک بیگ ٹانگے دُکان کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی میڈیکل سروس کا کہنا ہے کہ انھیں اس مقام سے ایک شخص کی لاش ملی ہے جس کی عمر 50 کے پیٹے میں تھی۔ اس دھماکے میں ایک 33 سالہ راہگیر کو بھی سینے اور پسلیوں میں چوٹیں آئی ہیں۔

یروشلم پوسٹ کو ضلعی پولیس کمانڈر ہائم ببلل نے بتایا کہ ’یہ ایک معجزہ ہے کہ یہ بم قریبی یہودی عبادت گاہ یا شاپنگ سینٹر میں نہیں پھٹا۔‘

حملہ آور کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی ہے، تاہم پولیس کو شک ہے کہ حملہ آور فلسطینی تھا۔

اتوار کو ایک علیحدہ واقعے میں مقبوضہ غربِ اردن کے علاقے قدومیم میں ایک فلسطینی شخص نے ایک اسرائیلی گارڈ کو ہلاک کردیا۔

اسرائیلی گارڈ گڈون پیری تین بچوں کے باپ تھے اور ان پر ایک مزدور نے ہتھوڑے سے حملہ کیا اور ان کی بندوق لے کر فرار ہوگیا۔

مقامی اسرائیلی کمانڈر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ’دہشتگرد حملہ‘ تھا اور فوجی اہلکار حملہ آور کے تعاقب میں ہیں۔

تاحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

دوسری جانب حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ جیت کے علاقے میں آبادکاروں کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک فلسطینی شخص ہلاک ہوا ہے۔

اس موقع پر اسرائیلی آبادکاروں نے گاڑیوں اور گھروں کو بھی نذرِ آتش کیا جس کی مذمت اسرائیلی رہنماؤں نے بھی کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں