اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کے روز وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں وزیرِ اعظم کو سپریم کورٹ کے اُس ایک فیصلے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی کہ جس کے تحت ایک احمدی شہری کو ضمانت پررہا کیا گیا تھا۔
اجلاس کے دوران کابینہ کو بتایا گیا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر اس مقدمے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 17 اگست 2024 کو ایک اضافی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
کابینہ کو مزید بتایا گیا کہ اس مقدمے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں تفصیلی بحث ہوئی اور یہ معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے کیا گیا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی وفاقی حکومت کو یہ ہدایت دے گی کہ اس مقدمے کے واقعاتی اور قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
کابینہ کے اجلاس میں دی جانے والی بریفنگ میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق اٹارنی جنرل 22 اگست 2024 کو سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست کی سماعت میں پیش ہوں گے اور اپنی ٹیم کے ہمراہ علمائے کرام اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رائے کی روشنی میں دلائل دیں گے۔
واضح رہے کہ توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار ایک ملزم کی درخواستِ ضمانت پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چھ فروری 2024 کو دیے گئے فیصلے کے بعد اچانک سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ایک منظم مہم کو جنم دیا تھا۔
اس مہم کے دوران جہاں چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے وہیں خود ان پر توہینِ مذہب جیسے سنگین الزامات عائد کیے جا چُکے ہیں۔
واضح رہے کہ عدلیہ مخالف مہم کے بعد جہاں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کا اردو متن اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا وہیں ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی گئی جس سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم میں مسلمان کی تعریف سے انحراف کیا ہے۔