امریکا: چین پر مرکوز جوہری ہتھیاروں کے نئے منصوبے کی منظوری

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ای ایف ای) امریکہ کے معروف میڈیا ادارے نیویارک ٹائمز نے منگل کے روز یہ اطلاع دی کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں برس مارچ میں ایک انتہائی ایسے خفیہ اسٹریٹجک نیوکلیئر منصوبے کو منظوری دی تھی، جس میں پہلی بار چین کے جوہری ہتھیاروں کی توسیع پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے واشنگٹن کی حکمت عملی کو نئی شکل دی گئی ہے۔

یہ منصوبہ مبینہ طور پر چین، روس اور شمالی کوریا سے ممکنہ مربوط جوہری ہتھیاروں کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو تیار کرنا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ واشنگٹن نے کبھی اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ بائیڈن نے “نیوکلیئر املپلوائے منٹ گائیڈينس’ نامی نئے منصوبے اور تجاویز کر منظوری دی ہے، لیکن توقع ہے کہ جنوری 2025 میں بائیڈن کے وائٹ ہاؤس سے روانہ ہونے سے پہلے ہی کانگریس کو کلاسیفائیڈ نوٹیفکیشن بھیجا جائے گا۔

امریکی حکام کا رد عمل

ادھر امریکہ میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ واشنگٹن کی جوہری ہتھیاروں کی حکمت عملی کو سمجھتا ہے اور پوزیشن وہی ہے جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ کے سن 2022 کے نیوکلیئر پوسچر ریویو میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس میں روس اور چین کے حوالے سے کوئی نئی سمت نہیں دیکھی گئی۔

جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سیویٹ سے نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، “اس سے پہلے کی چار دیگر انتظامیہ کی طرح ہی اس انتظامیہ نے بھی نیوکلیئر پوسچر ریویو اور نیوکلیئر ویپن امپلائمنٹ پلاننگ گائیڈنس جاری کیا ہے۔”

اس کا مزید کہنا تھا کہ “گرچہ گائیڈنس کا مخصوص متن کلاسیفائیڈ ہے، تاہم اس کا وجود کسی بھی طرح سے خفیہ نہیں ہے۔ اس سال کے شروع میں جاری کی گئیں گائیڈنس کسی ایک ادارے، ملک اور نہ ہی کسی ایک خطرے کا ردعمل نہیں ہے۔”

آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیرل کمبال کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کا خیال ہے کہ چین سن 2030 تک اپنے جوہری ہتھیاروں کا حجم 500 سے بڑھا کر 1000 تک کر سکتا ہے، جبکہ روس کے پاس اس وقت تقریباً 4000 جوہری وار ہیڈز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “امریکی جوہری حکمت عملی کے پیچھے سب سے بڑا محرک یہی وجہ ہے۔”

امریکی محکمہ دفاع نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ چین کی فوج 2035 تک تیز رفتار ترقی کرتی رہے گی۔ اس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بیجنگ کی حکمت عملی روس کے ساتھ “لامحدود” شراکت داری ہے اور اسے ایک طاقت کے طور پر اپنی ترقی کے لیے بنیادی چیز سمجھتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں