بیروت (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے بدھ کے روز اسرائیلی کنٹرول والی گولان پہاڑیوں پر 50 سے زیادہ راکٹوں سے حملہ کیا جس کی زد میں کئی پرائیویٹ گھر آئے۔
یہ حملہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے غزہ جنگ بندی کے مذاکرات کی ثالثی میں شریک مصر اور قطر کے ساتھیوں سے ملاقات کے ایک روز کے بعد ہوا۔
اپنی اس ملاقات میں بلنکن نے جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے تازہ ترین سفارتی کوششوں کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔ تاہم اسرائیل اور حماس کا کہنا ہے کہ کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کی راہ میں اب بھی چیلنجز باقی ہیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تازہ ترین تجاویز، اس سے قبل سامنے لائی گئی ان تجاویز سے الٹ ہیں جن پر اس نے اتفاق کیا تھا۔ حماس نے امریکہ الزام لگایا کہ وہ اس پر اسرائیل کی نئی شرائط قبول کرنے کیلئےزور دے رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
گولان ہائٹس میں امدادی کارکنوں نے بتایا کہ حملے سے ایک 30 سالہ شخص معمولی زخمی ہوا تھا جب کہ ایک مکان کو آگ لگی اور کسی بڑے نقصان سے پہلے ہی فائر فائٹرز سے آگ پر قابو پا لیا۔
حزب اللہ نے کہا ہے کہ یہ حملہ منگل کی رات لبنان کے ایک اندرونی علاقے میں اسرائیلی حملے کے جواب میں کیا گیا ہے جس میں ایک شخص ہلاک اور 19 زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے قبل منگل کو اسرائیل نے سرحد سے تقریباً 80 کلومیٹر اندر ہتھیاروں کے ایک ذخیرے کو نشانہ بنایا تھا جس کے فوری بعد حزب اللہ نے اسرائیل کی جانب 200 سے زیادہ راکٹ فائر کیے تھے۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان تقریباً روزانہ ہی جھڑپیں ہوتی ہیں۔ 10 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ان جھڑپوں کے نتیجے میں لبنان میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت جنگجوؤں کی تھی۔ تاہم ان میں 100 کے لگ بھگ عام شہری بھی شامل ہیں۔ جب کہ اسرائیل کو اب تک اس محاذ پر 23 فوجیوں اور 26 عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سامنا ہوا ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیاں شام سے چھین لیں تھیں جس کے بعد اس نے یہ کہتے ہوئے انہیں اپنی ملکی حدود میں ضم کر لیا کہ اسے اپنی سیکیورٹی کے لیے اس علاقے کی ضرورت ہے۔
امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جو گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرتا ہے جب کہ عالمی برادری گولان کو شام کا مقبوضہ علاقہ قرار دیتی ہے۔