خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں پھر سے اضافہ کیوں؟

پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 14 اضلاع میں دہشت گردی، دہشت گردوں کی مالی معاونت،سہولت کاری اوراغوا برائے تاوان کے 477 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ انسداد دہشت گردی کے صوبائی دفتر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صوبےکے 26 اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران 117 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 229 کو گرفتار کیا گیا۔

انہیں اضلاع میں دہشتگردی کے 237 واقعات میں 65 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 86 زخمی ہوئے۔ اس سال اب تک دہشت گردی کے سب سے زیادہ 40 واقعات شمالی وزیرستان میں پیش آئے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان دوسرے اور ضلع ٹانک اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔

گذشتہ سال کے اعدد و شمار کا تقابلی جائزہ

سال 2023 کو صوبے میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بد ترین سال قرار دیا گیا تھا۔ محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا کے اعداد وشمار کے مطابق سال گزشتہ سال کے دوران دہشت گردی کے 806 واقعات میں 1404 افراد مارے گئے تھے۔ خیبر پختونخوا میں ضم کیے گئے سات سابقہ قبائلی اضلاع میں 342 اور دیگر اضلاع میں دہشت گردی کے 464 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

پولیس پر 243 اور عوامی اجتماعات اوردیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر 563 حملے کیے گئے، جن میں پولیس کے 74 اہلکار ہلاک اور 401 زخمی جبکہ 51 فوجی اہلکاروں اور 144 عام شہریوں کو بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ سال 2023 میں دہشتگردی کے 132 واقعات کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست رہا۔

‘عام شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس’

دہشت گردی کے واقعات میں اضافے پر اپنے رد عمل میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا،”وزیرستان میں اکثر علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے عام شہریوں کے تحفظ کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ دہشت گردوں کے راستے میں تھوڑی سی رکاوٹ عوام کی جانب سے مزاحمت اور احتجاج کی وجہ سے ہے۔‘‘

انکا مزید کہنا تھا، ”انفرادی طور ان طالبان کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا اور اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے سے انہیں کوئی وقتی فائدہ ہوگا تو یہ بالکل درست نہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں۔ ‘‘محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف واحد حل سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جس میں کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر اقدامات اٹھائے جائیں۔

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومتی اقدامات

خیبر پختونخوا میں اب تک زیادہ تر دہشت گرد حملوں کا نشانہ پولیس رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقوں کے پولیس اسٹیشن خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ صرف رواں ماہ کے دوران پشاور کے گیارہ پولیس اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا گیا اور صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وارسک روڈ پر واقع پولیس اسٹیشنوں اور پولیس موبائل ٹیموں پر چار حملے کیے گئے۔

صوبائی حکومت پولیس اور باالخصوص انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کی استعداد بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ صوبائی حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں پولیس کے لیے 140 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

اس سلسلے میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،”سی ٹی ڈی کے لیے سات نئے ریجنز قائم کیے گئے اور ایک ایڈیشنل انسپکٹر جنرل تعینات کیا گیا۔ اس ادارے کو انٹیلی جنس اور ٹریکنگ سسٹم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو سابقہ قبائلی اضلاع تک توسیع دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں تھرمل ڈرونز اور جدید اسلحہ فراہم کیا گیا۔خصوصی لڑاکا یونٹ اور ایلیٹ وویمن کمانڈو یونٹ کا قیام عمل میں لاتے ہوئے متعدد خواتین پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی سے نمٹنے کی تربیت فراہم کی گئی۔‘‘

2019 سے 2023 تک صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے ان کے سروں کی قیمتیں بھی مقرر کیں۔ جس کے لیے تین ارب 31 کروڑ اور 71 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ خیبر پختونخوا کے 28 اضلاع میں 2251 دہشت گردوں کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔

فوج، پولیس اور سی ٹی ڈی صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشن کر چکی ہے۔ گزشتہ دنوں فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کہنا تھا،”سال رواں کے دوران پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف خفیہ اطلاعات کی بنیادوں پر 13000 آپریشن کیے گئے۔‘

دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی کے اسباب

2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد متفقہ طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نیشنل ایکشن پلان شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم دس سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ 2018 میں قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم تو کر دیا گیا تاہم معاہدے کے مطابق ان اضلاع سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے روزگار کے مواقع بڑھانےاورترقیاتی منصوبوں کے لیے نیشنل فنانس کمیشن میں رقم مختص کرنے کے اعلان پر عمل نہیں ہو سکا۔

قبائلی اضلاع کے صوبے میں انضمام کے باوجود انکے ضلعی دفاتر کی اکثریت آج بھی پشاور سمیت دیگر نواحی اضلاع میں کام کررہی ہیں۔ قبائلی اضلاع کے سیکورٹی اہلکاروں کو پولیس میں ضم کیا گیا لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے انکی صلاحیتوں اور وسائل کو بڑھانے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

قبائلی اضلاع میں زیادہ تر لوگوں کا انحصار افغانستان سے تجارت سے وابستہ ہے لیکن حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ چاربڑی گذرگاہیں طورخم، خرلاچی، انگور اڈہ اور غلام خان زیادہ تر بند رہتی ہیں، جس کی وجہ سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اسی بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان نوجوان بعض دفعہ عسکریت پسند تنظیموں کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔حکومت پاکستان کی غیر مستحکم داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بھی دہشت گردی کے خاتمے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر روابط استوار کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

عدم ثبوت اور تفتیش میں خامیاں

قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی میں ملوث بعض افراد کو حراست میں تو لیتے ہیں تاہم ناقص تفتیش اورشواہد کی کمی کی وجہ سے اکثر ان مشتبہ افراد کو ریلیف مل جاتا ہے۔ عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق سینکڑوں کیسز زیر سماعت ہیں ان کیسز کے لیے پولیس، سی ٹی ڈی اور سرکاری پراسیکیوٹرز پر مشتمل جائنٹ کمیٹی بنائی گئی ہے، جو کیسز کی نوعیت، شواہد اور ثبوتوں کے حوالے سے مقدمات کا جائزہ لیتی ہیں۔

معروف قانون دان نعمان محب کاکا خیل کا کہنا ہے، ”ثبوتوں کی کمی اور تفتیش میں کوتاہی کی وجہ سے بعض کیسز میں زیرحراست افراد کوریلیف ملتا ہے لیکن کیس ختم نہیں ہوتا اور جب کبھی ٹرائل کے دوران ثبوت مل جاتے ہیں توان افراد یا فرد کو طلب کیا جاتا ہے۔‘‘ کاکا خیل کا مزید کہنا تھا کہ اکثر حملوں میں خود کش حملہ آور بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، ایسے میں کیس نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوتا ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پولیس میں تفتیشی افسران کی کمی ہے اور 50 فیصد کیسز ناقص تفتیش کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔ عدالت کو سزائیں دینے کے لیے ثبوت چاہیے، جو نہیں ملتے تو وہ مقدمہ خارج کر دیتی ہے۔‘‘

قیام امن کیلئے عوام کا سڑکوں پر احتجاج

جب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف عزم استحکام کے نام پرایک اور آپریشن کا اعلان کیا تو خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور اس آپریشن کی مخالفت کی۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی خیبر پختونخوا میں درجنوں آپریشن کیے گئے، جو نتیجہ خیزثابت نہ ہوسکے اور اب کی بار بھی ان لوگوں کو یہی خدشہ ہے کہ آپریشن کے لیے انہیں بے گھر کیا جائے گا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے آپریشنوں سے ان کی نجی زندگیاں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ یہ مظاہرین صوبے میں کیے گئے سابقہ آپریشنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے دوران بے گھر ہونے والے افراد میں سے بعض کونہ تومعاضہ دیا گیااورنہ ہی انہیں اپنے علاقوں میں واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں