برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) جرمن پولیس کے مطابق ایک شامی شخص نے زولنگن میں جمعے کے روز ہوئے چاقو حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کیا ہے۔ اس چاقو حملے میں تین افراد ہلاک اور دیگر 8 زخمی ہو گئے تھے۔
جمعے کے روز جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہرزولنگن شہر میں ایک اسٹریٹ فیسٹیول میں ہزاروں افراد شریک تھے، جب ایک حملہ آور نے چاقو کے ذریعے وہاں لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں دو مرد اور ایک خاتون ہلاک ہوئے، جن کی عمریں چھپن، سڑسٹھ اور چھپن برس تھیں۔ حکام کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والے آٹھ افراد میں سے چار کی حالت اب بھی تشویش ناک ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک 26 سالہ شامی شہری نے خود کو پولیس کے حوالے کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس نے کیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سے قبل پولیس نے حملے کے مقام سے کچھ ہی فاصلے پر واقعے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے ایک ہوسٹل سے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا تھا۔
صوبائی وزیرداخلہ ہیربرٹ روئل کے مطابق پولیس کے پاس زیرحراست شخص کے اس حملے سے تعلق کے شواہد موجود ہیں۔ جرمن اخبارات بلڈ اور شپیگل کے مطابق یہ مشتبہ شخص دسمبر 2022 میں جرمنی پہنچا اور اس کے پاس جنگ زدہ ملک شام کے باشندوں کے لیے مخصوص امیگریشن اسٹیٹس ہے۔ اخبارات کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ادارے اس شخص کے شدت پسندی سے تعلق کا علم نہیں رکھتے تھے۔
جمعے کی شب زولنگن شہر کی 650ویں سالگرہ کے موقع پر ‘جشن تنوع‘ جاری تھا، جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے اور اس کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے تناظر میں جرمنی میں پہلے ہی ہائی الرٹ ہے جب کہ اس سے قبل بھی جرمن اسٹریٹ فیسٹیولز حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
رواں برس مئی میں ایک چاقو حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ پانچ دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ جرمن شہر منہائم میں یہ حملہ ایک انتہائی دائیں بازو کی ریلی پر کیا گیا تھا جب کہ اس کے اس حملے کے درپردہ اسلامی شدت پسندانہ عنصر سامنے آیا تھا۔
زولنگن میں ہوئے حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ نے اپنے پروپیگنڈا بازو عماق کے ذریعے قبول کی ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم نے دعویٰ کیا ہے، ”زولنگن میں مسیحیوں کے اجتماع پر حملہ کرنے والا اسلامک اسٹیٹ کا سپاہی ہے۔‘‘