کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ شب ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں اب تک 39 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ پاکستانی فوج کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے یہ حملے 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب کیے گئے جن کے خلاف فوری جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ اس دوران 10 فوجی اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
خیال رہے کہ یہ حملے بلوچستان کے دس سے زائد اضلاع میں کیے گئے تھے جن میں سب سے زیادہ، 22 ہلاکتیں ضلع موسیٰ خیل میں ہوئیں۔ سرکاری حکام نے اب تک قلات سے 11 افراد اور ضلع کچھی کے علاقے بولان میں چھ کے قتل کی تصدیق کی ہے۔
کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ان حملوں کے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے حملوں کے بعد جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسند اور ان کے سہولت کار عبرتناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔
یہ حملے بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے اور اس آپریشن کو کالعدم تنظیم بی ایل اے کی جانب سے ’آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا ہے۔
گذشتہ شب ہونے والے بڑے حملے
گذشتہ رات ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں سب سے زیادہ نقصان موسیٰ خیل، لسبیلہ، قلات اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں ہوا ہے۔
اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان موسیٰ خیل میں ہوا جہاں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان سے لوگوں کو اتار کر شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
موسیٰ خیل میں پولیس کے سربراہ محمد ایوب اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’راڑہ ہاشم علاقے میں ہونے والے اس حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
اسسٹنٹ کمشنر موسیٰ خیل نجیب کاکڑ کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 17 کا تعلق پنجاب کے مختلف اضلاع جبکہ دو کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ تاحال تین افراد کی شناخت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے اس علاقے میں 18 گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا جن میں مسافر بس، ٹرک اور دیگر گاڑیاں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گاڑیوں پر فائرنگ کے علاوہ بعض کو نذرآتش بھی کیا گیا۔
اسسٹنٹ کمشنر موسیٰ خیل نجیب کاکڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان چلنے والی مختلف گاڑیوں میں سفر کرنے والے افراد کے شناختی کارڈز دیکھنے کے بعد متعدد افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق فائرنگ سے پانچ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ انھیں طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے ڈیرہ غازی خان منتقل کیا گیا ہے۔
موسیٰ خیل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے شمال مشرق میں اندازاً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر پنجاب کے قریب واقع ہے۔
اس علاقے کی آبادی کی غالب اکثریت پشتونوں کے موسیٰ خیل قبیلے پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے شورش سے متاثرہ اضلاع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی بھی اس ضلع کے قریب واقع ہیں۔
قلات میں 5 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد کی ہلاکت
گذشتہ شب قلات شہر کے قریب ایک ہوٹل اور گھر پر حملے کے علاوہ مسلح افراد نے لیویز فورس کے ایک تھانے پر بھی حملے کیا۔
گذشتہ شب قلات کے ایس ایس پی دوستین دشتی نے ان حملوں میں اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب لاسی کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
قلات میں مہلبی میں لیویز فورس کے تھانے پر حملے کے علاوہ ایک قبائلی شخصیت زبرمحمد حسنی کے گھر اور ہوٹل پر بھی حملے کیے گئے۔ قلات ہسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ شب ہونے والے حملوں کے حوالے سے مجموعی طور پر 11 افراد کی لاشیں ہسپتال لائی گئیں جن میں سے لیویز فورس کے چار اور پولیس کے ایک اہلکار کی لاش شامل ہے۔
ان حملوں میں چھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اُدھر قلات سے متصل ضلع مستونگ میں کھڈکوچہ میں بھی لیویز فورس کے تھانے پر حملہ کیا گیا۔ مستونگ میں لیویز فورس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
قلات اور مستونگ میں کوئٹہ اور کراچی ہائی وے پر مسلح افراد کی موجودگی اور ان حملوں کی وجہ سے ٹریفک کئی گھنٹوں تک معطل رہی۔
تاہم سرکاری حکام کے کہنا ہے کہ آج صبح دس بجے ہائی وے پر ٹریفک بحال ہو گئی ہے۔
مستونگ کوئٹہ سے 50 کلومیٹر جبکہ قلات 150 کلومیٹر پر جنوب میں واقع ہیں۔ ان دونوں علاقوں کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔
’بولان کے علاقے سے 6 افراد کی لاشیں برآمد کی گئیں‘
ضلع کچھی کے علاقے بولان سے چھ افراد کی لاشیں برآمد کی گئیں۔
کچھی پولیس کے سربراہ دوست محمد بگٹی نے فون پر بتایا کہ اس علاقے میں نامعلوم افراد نے ریلوے کے ایک پل کو دھماکہ خیزمواد سے نقصان پہنچایا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ان افراد کی لاشیں اسی متاثرہ پل کے قریب تھیں جن میں سے دو ابھی تک پل کے ملبے میں پھنسی ہوئی ہیں جبکہ چار لاشوں کو نکال کر شناخت کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔
پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ مارے جانے والے یہ چھ لوگ سویلین تھے۔
لسبیلہ اور دیگر علاقوں میں حملے
گذشتہ شب ضلع لسبیلہ میں بھی ایف سی کے ایک کیمپ پر حملہ ہوا ہے۔
سرکاری حکام نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رات گئے تک سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا لیکن تا حال سرکاری سطح پر کسی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
تاہم سرکاری حکام نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں حملہ آور مارے گئے۔
کالعدم بی ایل اے کا کہنا ہے کہ فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے میں مجید بریگیڈ کے دو خودکش بمباروں نے بھی حصلہ لیا، جس میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔
ادھر ضلع گوادر میں جیونی کے علاقے میں سنٹ سر پولیس سٹیشن پر بھی گذشتہ شب مسلح افراد نے حملہ کیا۔
مکران پولیس کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آوروں نے تھانے کے باہر تین گاڑیوں کو نذرآتش کیا جن میں سے دو پولیس کی تھیں جبکہ تیسری گاڑی ایک مقدمے کے حوالے سے تحویل میں لی گئی تھی۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ حملہ آور تھانے سے پولیس اہلکاروں کا اسلحہ بھی لے گئے ہیں۔
ان حملوں کے علاوہ کوئٹہ، مستونگ، سبی، پنجگور، تربت اور بعض دیگر شہروں میں بم دھماکوں کے واقعات بھی پیش آئے۔
’ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی قطعاً قبول نہیں‘
وزیراعظم شہباز شریف نے موسی خیل واقعے کی مذمت کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعے کی فوری تحقیقات کی ہدایت کر دی ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں کسی بھی قسم کی دہشتگردی قطعاً قبول نہیں۔‘ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے بھی موسیٰ خیل واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعلیٰ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
مجید بریگیڈ کب بنی اور یہ کیوں بنائی گئی؟
خیال رہے کہ یہ حملے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ کی جانب سے آپریشن ہیروف کا اعلان کرتے ہوئے فوجی کیمپ پر حملوں اور صوبے بھر میں مختلف شاہراہوں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم تاحال سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
مجید بریگیڈ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔
مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا۔
بلوچستان میں حالیہ مسلح جدوجہد کا آغاز سابق وزیر اعلیٰ اور سینئیر سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔
بلوچستان میں اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ نیشنل گارڈ دیگر تنظیمیں اور ان کے گروپس شامل ہیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی سرگرمی کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں سب سے پرانی تنظیم بی ایل اے ہے۔
بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔
کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر اور مجید بریگیڈ کے سربراہ بشیر زیب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین رہے ہیں۔ بعد میں انھوں نے بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی۔
بی بی سی کی جانب سے تحریری طور پر بھیجے گئے سوالات کے تحریری جواب میں کہا ہے کہ ’مجید بریگیڈ کے قیام کے مقاصد یہ تھے کہ عسکری حوالے سے مخالف کو وہاں ضربیں لگائی جائیں، جہاں روایتی گوریلا جنگ میں ممکن نہیں اور اس کا سیاسی مقصد دنیا اور دشمن کو یہ دِکھانا ہے کہ بلوچ آزادی کے حق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس مقصد کے لیے ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کریں گے۔‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مجید بریگیڈ اور باقی مزاحمت کاروں میں فرق یہ ہے کہ گوریلا کو حملہ کر کے بحفاظت نکلنے کی تربیت ہوتی ہے جبکہ بریگیڈ کے فدائی کو اپنی جان کے قیمت پر مقصد حاصل کرنے کی تربیت ہوتی ہے، جس میں طویل مزاحمت کے لیے جسمانی برداشت کی بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔‘