بلوچستان کے متعدد اضلاع میں بیک وقت حملے؛ موسیٰ خیل، قلات اور بولان میں 37 افراد ہلاک

کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 37 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔

بلوچستان کے پنجاب سے متصل علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے اُتار کر شناخت کے بعد قتل کر دیا۔

خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے قومی شاہراہ کو ناکہ لگا کر بند کر دیا۔ یہ شاہراہ بلوچستان کو پنجاب سے ملاتی ہے۔

مقامی افراد نے اطلاع دی ہے کہ اس مقام پر مسلح افراد نے دو درجن سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو نذرِ آتش بھی کیا ہے۔

موسیٰ خیل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس دوران مسلح افراد نے پنجاب سے بلوچستان آنے والی گاڑیوں سے شہریوں کو اُتار کر شناخت کے بعد قتل کیا۔

ضلع موسیٰ خیل کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ایوب اچکزئی نے شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں 23 افراد ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے ہیں۔

ایس پی موسیٰ خیل ایوب اچکزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاشوں اور زخمی افراد کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب سے بتایا جاتا ہے۔

ایوب اچکزئی کے بقول مسلح افراد نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو مسافر بسوں سے اتارا جب کہ باقی 17 کو کوئلے کی ٹرکوں سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔

موسیٰ خیل میں جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں مسلح افراد نے 16 سے زائد کوئلے سے لدے ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔

اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کچھ ویڈیوز بھی زیرِ گردش ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوئلے سے لدے ٹرکوں سمیت دیگر گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔

دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے: صوبائی حکومت

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہ رند نے کہا ہے کہ دو سے تین مقامات پر حملے کیے گئے ہیں۔ دو مقامات پر سیکیورٹی اداروں نے حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے۔

نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ سے گفتگو میں شاہد رند نے کہا کہ موسیٰ خیل میں مسافروں کو بسوں سے اتار کر شناخت کیا گیا۔

ان کے بقول ایسے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ تنظیم کوئی بھی ہو اگر موسیٰ خیل جیسی کارروائیاں کرتی ہے تو وہ دہشت گرد ہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جس صورتِ حال کا سامنا ہے اس میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سمیت سب کو مل کر کوشش کرنی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کا علاقہ ڈی جی خان سے منسلک ہے۔ ایسے پہاڑی علاقوں میں شاہراہیں قومی شاہراہیں نہیں ہوتیں تو یہاں سیکیورٹی کم ہوتی ہے۔ عسکریت پسندوں کا موسیٰ خیل میں حملہ سیکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے کہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کی گئی۔

صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی موسیٰ خیل واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہو گا۔ ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی قبول نہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں موسی خیل میں 23 افراد کے قتل کے واقعے کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار عبرت ناک انجام سے بچ نہیں پائیں گے۔

قلات میں اسسٹنٹ کمشنر فائرنگ سے زخمی

ضلع قلات میں رپورٹ ہونے والے ایک واقعے میں اسسٹنٹ کمشنر فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہوئے ہیں۔

قلات میں لیویز کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتوار کی شب مسلح افراد نے قلات میں مہلبی کے علاقے میں لیویز تھانے پر حملہ کیا تھا۔

عہدیدار کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر قلات آفتاب لاسی فائرنگ کی زد میں آ کر معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

ان کے بقول فائرنگ کے تبادلے میں دو اہلکار بھی شدید زخمی ہوئے۔

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز زیرِ گردش ہیں جن میں قلات میں سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

قلات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک

قلات ہی میں ایک مقامی قبائلی رہنما کے گھر اور ایک ہوٹل پر بھی حملے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

قلات میں انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ رات گئے تک جھڑپیں ہوئیں۔

اس دوران لیویز کے چار اہلکار اور ایک قبائلی شخصیت سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

فائرنگ کے تبادلے میں نو افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔

قلات میں لیویز کنٹرول کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قلات میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب مسلح افراد نے مقامی قبائلی شخصیت کے گھر پر حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہیں لیویز فورس جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوئی۔ تاہم راستے میں عسکریت پسندوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا جہاں فائرنگ پر ان کا سیکیورٹی اہلکاروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ فائرنگ کے تبادلے میں لیویز کے چار اہلکار ہلاک ہوئے۔

لیویز اعلیٰ افسر کا دعویٰ تھا کہ قلات کی صورتِ حال اب کنٹرول میں ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں قلات میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ قلات میں مسلسل فائرنگ اور مواصلاتی نظام میں خلل پڑنے کے باعث رابطوں میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

مقامی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ قلات میں حملوں کے باعث کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کیا گیا ہے۔

بولان سے چھ افراد کی لاشیں برآمد

ضلع بولان کے ایس ایس پی نے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چار لاشیں قومی شاہراہ سے کولپور کے مقام پر ملی ہیں جب کہ دو لاشیں ایک تباہ شدہ پل کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مقتولین کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اندازہ ہو رہا ہے کہ مقتولین کو شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کیا گیا۔ مقتولین کی شناخت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔

بولان میں ریلوے پل تباہ

ضلع بولان میں شرپسندوں نے ریلوے کا ایک پل بھی تباہ کر دیا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بولان کے علاقے دوزان میں ریل کا پل دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا گیا ہے۔

پل تباہ ہونے کے سبب ریل سروس معطل ہو گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ملک کے دیگر حصوں سے کوئٹہ جانے والی ریل گاڑیوں کو روک لیا گیا ہے جب کہ کوئٹہ سے بھی اندرونِ ملک جانے والی ٹرینیں بھی روک دی گئی ہیں۔

لسبیلہ میں ایف سی کے کیمپ کے اطراف دھماکے

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بائی پاس کے قریب مسلح افراد نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے ایک کیمپ پر بھی حملہ کیا ہے۔

مقامی افراد نے بتایا کہ اتوار کی شب ایف سی کیمپ کی طرف سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

سیکیورٹی ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس دوران پانچ حملہ آور مارے گئے ہیں۔ تاہم فورسز کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اور حکام نے سرکاری طور پر بھی عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

لسبیلہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم ‘بلوچ لبریشن آرمی’ (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔

تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ بیلہ کیمپ میں حملے سے فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

بی ایل اے نے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی

بی ایل اے نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ‘آپریشن ہیروف’ کا نام دیا ہے۔

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی ایل اے کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے لسبیلہ میں فورسز کے کیمپ پر حملہ کیا۔

ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تاحال حکومتی سطح پر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

لسبیلہ کے علاوہ بلوچستان کے ضلع سبی، تربت اور کوئٹہ میں بھی فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ بعض واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

گوادر میں تھانے پر حملہ

بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے جیوانی میں بھی اتوار کو مسلح افراد نے ایک تھانے کو نشانہ بنایا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے پولیس کی تین گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور اپنے ساتھ اسلحہ لے گئے۔

حملہ آوروں نے تھانے میں موجود اہلکاروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ تاہم اس حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

مستونگ میں لیویز تھانے پر قبضہ

اس کے علاوہ ضلع مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں بھی مسلح افراد کی لیویز کے ایک تھانے پر حملہ آور ہونے کی اطلاع ہیں۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 14 اگست کو کھڈ کوچہ کے علاقے میں ہی بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر ذاکر بلوچ ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

مقامی انتظامیہ نے اتوار کی شب کھڈ کوچہ میں قائم لیویز تھانے پر حملے کی تصدیق کی ہے۔

مسلح افراد نے لیویز تھانے پر قبضہ کیا۔ اس دوران تھانے میں موجود تمام اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

انتظامیہ کے مطابق فورسز نے کھڈ کوچہ تھانے کے اطراف سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ آپریشن کے لیے سیکیورٹی اداروں کی مزید نفری بھی طلب کی گئی ہے۔

مساجد سے قومی شاہراہ پر سفر کرنے سے گریز کے اعلانات

کھڈ کوچہ کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ انتظامیہ نے مساجد سے اعلانات بھی کرائے ہیں کہ مسافر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر سفر کرنے سے گریز کریں۔

متعدد حملوں کے سبب قومی شاہراہ پر مستونگ میں مسافر بسیں اور دیگر گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔

قلات اور مستونگ میں حالیہ حملوں کے بعد نواب غوث بخش میموریل اسپتال مستونگ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

ڈیوٹی روسٹر کے مطابق ڈاکٹرز، اسٹاف نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت دیگر عملے کو الرٹ رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں