بلوچستان: مسلح حملوں اور جھڑپوں میں 51 افراد ہلاک

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) حکام کے مطابق بلوچ علیحدگی پسندوں نے پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر مسلح حملے کیے۔ یہ حملے حالیہ سالوں میں اس شورش زدہ صوبے میں عسکریت پسندوں کی سب سے وسیع پیمانے پر کی گئی کارروائی تھے۔

پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر مسلح حملوں اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 51 افراد ہلاک ہوگئے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کیے گئے یہ حملے گزشتہ کئی سالوں میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پرکی جانے والی عسکری کارروائیاں تھیں۔ یہ ان حملہ آوروں کی جانب سے قدرتی وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی علیحدگی حاصل کرنے کی دہائیوں سے جاری کوششوں کا حصہ ہیں۔

ہمسایہ ملک چین کی قیادت میں ترقیاتی منصوبوں کے تحت ایک تزویراتی بندرگاہ اور سونے اور تانبے کی کان کنی کے پروجیکٹس بھی اسی صوبے میں جاری ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا، ”یہ حملے پاکستان میں انتشار پھیلانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اتوار اور پیر کے روز کیے جانے والے حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے کارروائیوں میں 12 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔

عسکریت پسندوں کی طرف سے اس دوران کیے گئے سب سے بڑے حملے میں ایک بڑی شاہراہ پر مسافر بسوں سے لے کر مال بردار ٹرکوں تک کو نشانہ بنایا گیا، جس میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے، حکام نے بتایا کہ 35 گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

پاکستان ریلوے کے اہلکار محمد کاشف نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت کو پاکستان کے باقی حصوں سے ملانے والے ایک ریلوے پل اور پڑوسی ملک ایران کے ساتھ ایک ریل لنک پر ہونے والے دھماکوں کے بعد کوئٹہ کے ساتھ ریل کی آمدورفت معطل کر دی گئی۔

پولیس نے کہا کہ انہیں ریلوے پل پر حملے کی جگہ کے قریب سے ابھی تک چھ نامعلوم لاشیں ملی ہیں۔ حکام نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اسٹیشنوں پر حملے کیے گئے اور ایک ایسے ہی حملے میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔

علیحدگی پسند مسلح گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے صحافیوں کو ایک بیان میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جس میں مزید کئی حملوں کا دعویٰ بھی کیا گیا، جن میں ایک اہم نیم فوجی اڈے پر حملہ بھی شامل ہے۔ پاکستانی حکام نے ابھی تک ان حملوں کی تصدیق نہیں کی ہے۔

بی ایل اے صوبے میں سرگرم اُن کئی نسلی باغی گروپوں میں سب سے بڑا ہے، جو کئی دہائیوں سے مرکزی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ان باغی گروہوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس اور معدنی وسائل کا ناجائز استحصال کرتی ہے۔

یہ گروہ صوبے سے چین کی بے دخلی اور صوبے کی آزادی چاہتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کریں گی اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گی۔

یہ حملے ایک ایسے موقع پر بھی سامنے آئے ہیں ، جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی گراؤنڈ فورسز کے کمانڈر جنرل لی کیاومنگ پاکستان کے دورے پر موجود ہیں اور انہوں نے آج پیر کے روز پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سے راولپنڈی میں ملاقات کی۔

تاہم پاکستانی فوج کے بیان میں اس ملاقات میں بلوچستان میں حملوں کے موضوع پر گفتگو کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے، ”ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی، فوجی تربیت اور دو طرفہ دفاعی تعلقات کو مزید بڑھانے کے اقدامات پر گہرائی سے بات چیت کا موقع ملا۔‘‘

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایوب اچکزئی نے روئٹرز کو بتایا کہ اتوار کی رات مسلح افراد نے بلوچستان میں ایک ہائی وے کو بلاک کر دیا، مسافروں کو گاڑیوں سے اتارا اور ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد انہیں گولی مار دی۔ موسی خیل کے علاقے میں ہائی وے پر ٹرکوں سمیت 35 گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔

علاقے کے ڈپٹی کمشنر حمید ظاہر نے کہا،”مسلح افراد نے نہ صرف مسافروں کو ہلاک کیا بلکہ کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو بھی ہلاک کر دیا۔‘‘ عسکریت پسندوں نے مشرقی صوبہ پنجاب سے کام کی تلاش میں بلوچستان آنے والے ورکروں کو نشانہ بنایا ہے، جنہیں وہ اپنے وسائل کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔

بی ایل اے نے کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے سویلین کپڑوں میں سفر کرنے والے فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے کہا کہ ہلاک ہونے والے معصوم شہری تھے۔

ایک پولیس اہلکار دوستین خان دشتی نے بتایا کہ قلات کے وسطی ضلع میں بلوچستان لیویز کے ایک اسٹیشن پر حملہ کرنے والے مسلح عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں چھ سیکورٹی اہلکار، تین عام شہری اور ایک قبائلی بزرگ ہلاک ہوئے۔

حکام نے بتایا کہ دو جنوبی ساحلی قصبوں میں پولیس اسٹیشنوں پر بھی حملے کیا گئے تاہم ابھی تک ان حملوں میں ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ خیال رہے کہ بلوچستان کی سرحدیں ایران اور افغانستان دونوں سے ملتی ہیں۔ یہ رقبے کے لحاظ سے تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے سب چھوٹا اور غربت کی اعلی سطح کے ساتھ سب سے زیادہ پسماندہ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں