قاہرہ (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے ذرائع کے حوالے سے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات کے بے نتیجہ رہنے کی اطلاعات دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق غزہ اور مصر کی سرحد سے اسرائیلی فوجی انخلا کا معاملہ مذاکرات میں جمود کا سبب بنا ہوا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ممکنہ معاہدے پر مصری دارالحکومت قاہرہ میں ہونے والی بات چیت کسی سمجھوتے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے دو سکیورٹی ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حماس اور نہ ہی اسرائیل نے ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ نکات پر اتفاق کیا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مصر میں مذاکرات کا تازہ ترین دور ایک بار پھر تعطل کا شکار ہے۔ ڈی پی اے کو قاہرہ کے ہوائی اڈے کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تیرہ رکنی اسرائیلی وفد، جو بات چیت کے لیے اتوار کے دن قاہرہ پہنچا تھا، رات دیر گئے واپس روانہ ہو گیا۔
قطر کی نمائندگی کے لیے قاہرہ کا سفر کرنے والے امیر تمیم بن حمد الثانی بھی مصری دارالحکومت چھوڑ چکے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے نمائندے، جو دوحہ سے بالواسطہ طور پر مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے، وہ بھی واپس روانہ ہو گئے ہیں۔
حماس اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر رہے، اس لیے امریکہ، قطر اور مصر ثالثوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ اسرائیل کو جولائی کے اوائل میں کیے گئے وعدوں اور امریکی صدر جو بائیڈن کے تجویز کردہ امن منصوبے کا پابند ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حماس پہلے سے طے شدہ انتظامات پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے اور جنگ سے متعلق کسی بھی معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا بھی شامل ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ یہ امن مذاکرات مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ ڈی پی اے کے ذرائع کے مطابق ان مذاکرت میں بڑا سوال یہ ہے کہ آیا اسرائیلی فوجی غزہ پٹی اور مصر کی مشترکہ سرحد پر تعینات رہ سکتے ہیں۔
اسرائیل کو شبہ ہے کہ حماس اس سرحد کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتی رہی ہے جب کہ حماس غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا پر اصرار کرتی ہے۔
قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات اتوار کی صبح اسرائیل اور لبنان میں حزب اللہ ملیشیا کے ایک دوسرے پر بھاری حملوں کے زیر سایہ ہوئے تھے۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس کشیدگی کا بات چیت پر براہ راست اثر نہیں پڑا۔ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات مشرق وسطیٰ کے خطے میں اس جنگ کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کو روکنے کی امید سے منسلک ہیں۔ اسرائیلی افواج اور حماس کی اتحادی ملیشیا حزب اللہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں مصروف ہیں۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے حملے 30 جولائی کو بیروت میں اس کے فوجی کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ ہیں۔
ابھی تک اس بات کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کا نیا ممکنہ دور کب شروع ہو سکتا ہے۔
غزہ کی جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں بارہ سو افراد مارے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ حملے کے بعد حماس کے جنگجو اڑھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ہمراہ غزہ بھی لے گئے تھے۔
ان میں سے ایک سو کے قریب یرغمالیوں کو ایک ڈیل کے تحت رہا کرا لیا گیا تھا۔ تاہم بعض یرغمالی اس دوران ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس وقت بھی ایک سو نو کے قریب یرغمالی حماس کی قید میں ہیں۔
دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ ساڑھے دس ماہ سے زائد عرصے سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک چالیس ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک اور پچانوے ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔