ماشکیل (ڈیلی اردو) 16اپریل 2013 کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل میں 7.8شدت کے زلزلہ متاثرین 6سال بعد بھی خیموں میں شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔
نگراں وزیراعلی نواب باروزئی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں پیکچز کے اعلانات کے باوجود متاثرین کی دادرسی نہیں ہوسکی جبکہ متاثرین کے فنڈز میں مبینہ کرپشن کا بھی خدشہ ہیں ۔
16 اپریل 2013 کو بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے ماشکیل میں 7.8 شدت کے زلزلہ سے 5000 ہزار کے قریب مکانات زمین بوس اور 35 افراد جاں بحق ہوئے تھے اس وقت کے وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے زلزلہ زدگان کیلئے 18 کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا لیکن وہ اعلان وفا نہیں ۔
اس کے بعد نواب ثنا اللہ زہری کی دور حکومت میں بھی زلزلہ زدگان کیلئے 12 کروڑ روپے امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا اور شرائط عائد کی گئی تھی کہ متاثرین اپنا بینک اکاونٹ کھلوائیں جس پر متاثرین نے ادھار رقم لیکر 500 سو روپے کے اکانٹس کھلوائے لیکن تاہم امدادی رقم کا کوئی پتہ نہیں چلا جبکہ علاقے سے منتخب سابق صوبائی وزیر اور وفاقی وزیر نے بھی لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں ۔
اٹھائے 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں علاقے سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی میر حاجی زابد علی ریکی نے 29 دسمبر 2018 کو اسبملی اجلاس میں زلزلہ متاثرین کا مسئلہ اٹھایا اس کے بعد ایک کمیٹی بھی تشکیل دیا گیا لیکن اس کے باوجود زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔
علاقے کے سیاسی و سماجی حلقوں نے وزیراعلی بلوچستان جام کمال علاقے سے منتخب عوامی نمائندوں اور حکام بالا سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ ماشکیل کے زلزلہ متاثرین کے متعلق جلد از جلد ہنگامی سطح پر اقدامات کئے جائیں اور ان کو امداد دی جائے تاکہ ان کے مشکلات دور ہو سکیں۔