کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) 23 اگست کے دن جب حمید بلوچ کی بیٹی یونیورسٹی کی چھٹی ختم ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہوئیں تو کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا۔ حمید بلوچ بلوچستان کے ضلع گوادر سے 25 کلومیٹر دور سربندر کے رہائشی ہیں۔
تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی یعنی وکالت کی طالبہ، 23 سالہ ماہل بلوچ، نے اسی دن شام کو ایک بار پھر گھر والوں سے خود ہی رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کا فون ٹھیک نہیں اور اب وہ خود ہی دوبارہ رابطہ کریں گی۔
یہ جمعے کا دن تھا اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کی بیٹی ماہل کا اپنے گھر والوں سے یہ آخری رابطہ تھا۔
ٹھیک تین دن بعد، 26 اگست کی صبح، تقریبا سات گھنٹے کی مسافت پر واقع بیلہ کے مقام پر سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے دروازے پر ایک گاڑی ٹکرانے کے بعد دھماکہ ہوا۔
26 اگست کو بلوچستان کے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر دس اضلاع میں کالعدم تنظیم بی ایل اے کی کارروائیوں میں، جنھیں ’آپریشن ھیروف‘ کا نام دیا گیا، کم از کم 39 افراد کی ہلاکت ہوئی جبکہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
ان میں سے ایک بڑی کارروائی بیلہ میں ہوئی جہاں خود بی ایل اے کے مطابق دو خودکش بمباروں میں سے ایک ماہل بلوچ بھی تھیں۔ کالعدم شدت پسند تنظیم کی جانب سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق آپریشن ھیروف کا آغاز ماہل بلوچ کی گاڑی ٹکرانے سے ہوا۔
بلوچستان پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بیلہ میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملے میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ ایس ایس پی کیپٹن نوید عالم نے بتایا کہ ایف سی کیمپ پر حملہ کرنے والے پانچ شدت پسند ہلاک ہوئے جن میں ماہل نامی خاتون سمیت تین خودکش بمبار شامل تھے۔
ماہل کے والد حمید بلوچ سے جب حکام نے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ بیلہ میں کیمپ پر ماہل نے خودکش حملہ کیا ہے تو ان کے مطابق یہ بات ان کے لیے ’باعث تعجب تھی۔‘
جبکہ کالعدم بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے دعوی کیا کہ ’ماہل بلوچ نے 2022 میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023 میں وہ مجید برگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انھوں نے تربیت بھی لی۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل کالعدم بی ایل اے کی دو مختلف پرتشدد کارروائیوں میں دو خواتین خودکش بمبار استعمال ہو چکی ہیں اور ماہل بلوچ اسی تنظیم کی تیسری خاتون خودکش بمبار تھیں۔
لیکن ماہل بلوچ کون تھیں؟ وہ ایک کالعدم شدت پسند تنظیم کا حصہ کیسے بنیں؟
بی بی سی نے سربندر کے رہائشی ماہل کے والد حمید بلوچ اور ان کے چند دوستوں سے بات چیت کی اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ماہل بلوچ کون تھیں؟
ماہل بلوچ نے ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کیا اور اس کے بعد تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا جہاں وہ آخری سمیسٹر کی طالبہ تھیں۔ ان کا تعلق گودار کے ایک سیاسی گھرانے سے تھا۔
ان کے والد، جن کا پورا نام کہدہ حمید اعصا ہے، سربندر یونین کونسل کے دور بار چیئرمین رہ چکے ہیں جبکہ ماہل کے چچا دو بار گودار کے ضلعی ناظم اور چیئرمین رہے ہیں۔ ماہل کے ایک ماموں بھی سرکاری افسر ہیں۔
کہدہ حمید اور ان کے بڑے بھائی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد نیشنل عوامی پارٹی میں شامل رہے اور میر غوث بخش بزنجو کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
ماہل کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس وقت آٹھویں سیمسٹر میں تھی۔‘
کہدہ حمید کے چھ بچے ہیں جن میں سے ماہل پانچویں نمبر پر تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ماہل گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئٹہ وکالت کی پریکٹس کے لیے انٹرن شپ کر رہی تھیں جہاں اس کے ساتھ کزنز بھی موجود تھیں۔‘
ماہل بلوچ کے انسٹا گرام پر موجود مواد میں ’دی آرٹ آف وار‘، کیوبا کے فیدل کاسترو کی کتاب ’تاریخ مجھے بری کر دے گی‘ کا ترجمہ، میکسم گورکی کا عالمی شہرت یافتہ ناول ’ماں‘ اور فرانز کافکا سمیت دیگر کتابوں کے حوالے اور تصاویر موجود ہیں۔
ماہل کے والد حمید کا کہنا ہے کہ وہ خود یہ دیکھ کر حیران ہیں کیونکہ ’گھر میں بلوچی ادب تو پڑھا جاتا ہے باقی انگریزی کی صرف نصاب کی کتابیں ہوتی تھیں۔‘ ماہل نے یہ کہاں پڑھیں وہ نہیں جانتے۔
’ہم نے اس کو یہ ہدایت نہیں دی تھی کہ یہ کام کرے‘
ماہل بلوچ کی فیملی کا پس منظر تو سیاسی رہا ہے تاہم ان کے اہلخانہ اور دوستوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے خود کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔
ان کے ایک ساتھی طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا گزشتہ چار سال کی شناسائی کے دوران ماہل کسی بحث یا مباحثے میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ ’نہ ہی کبھی اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی شدت پسندانہ کارروائی میں شریک ہونا چاہتی تھی۔‘
ماہل کے ایک اور کلاس فیلو نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بظاہر اس کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی اور وہ مسلح جدوجہد کے بارے میں بھی کبھی بات نہیں کرتی تھی۔‘
ان کا دعوی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر ماہل کو پڑھائی میں مصروف ہی دیکھا۔ ’ایک مرتبہ ہم نے بات کی کون پریکٹس کرے گا اور کمیشن کے لیے تیاری کرے گا، تو ماہل کو زیادہ وکالت سے دلچسپی تھی۔‘
ماہل بلوچ کے اہلخانہ کے مطابق ان کے خاندان میں نہ کبھی کسی کی جبری گمشدگی ہوئی اور نہ کبھی کسی کی مسخ شدہ لاش ملی۔
تو پھر ماہل نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب واضح نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ماہل کے والد نے دعوی کیا کہ ’وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی تھی‘، اس بارے میں انھیں یا فیملی میں سے کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔
’کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ وہ طویل عرصے تک رابطے میں نہ رہی ہو یا کہیں چلی گئی ہو۔‘
تاہم بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں کالعدم بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ نے دعوی کیا کہ ’ماہل بلوچ نے 2022 میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023 میں وہ مجید برگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انھوں نے تربیت بھی لی۔‘
جیئند بلوچ نے ایک اور سوال کے جواب میں دعوی کیا کہ ’خودکش حملے کے وقت ماہل اکیلی گاڑی چلا رہی تھیں۔‘
ماہل کے ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھوں نے 2021 میں تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا اور اسی سال 21 فروری کو ان کی باقاعدہ کلاسوں کا آغاز ہوا تھا۔
ماہل کے والد کہدہ حمید کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے دکھ ہوتا ہے لیکن ہم نے اس کو یہ ہدایت نہیں دی تھی کہ یہ کام کرے۔‘
تیسری خاتون خودکش حملہ آور
ماہل بلوچ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے بطور خودکش بمبار استعمال ہونے والی تیسری خاتون تھیں۔
اس سے قبل اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے کنفیوشس سینٹر کے باہر خودکش حملہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد مارے گئے تھے۔
شاری بلوچ عرف برمش تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ دو بچوں کی والدہ تھیں اور ان کے شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ ان کا تعلق ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔
تربت میں جون 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے کی گئی تھی۔ کالعدم جماعت بی ایل اے کے مطابق سمعیہ بلوچ ریحان بلوچ کی منگیتر اور مجید برگیڈ کے بانی رہنما اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔
ریحان بلوچ نے اگست 2018 میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے قریب چینی انجینیئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔
کیا ماہل بلوچ نام کی کوئی اور خاتون بھی ہیں جن سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیل رہی ہیں؟
بیلہ میں خودکش حملہ آور کی شناخت اور نام سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر ایک تنازع نے جنم لیا جس میں ایک ایسی خاتون کی تصاویر سامنے آئیں جن کا حالیہ حملے سے کوئی تعلق نہیں۔
اس تنازع کی وجہ ایک جیسا نام ہے۔ واضح رہے کہ کوئٹہ میں فروری 2023 کو گرفتار ہونے والی ایک خاتون کا نام بھی ماہل بلوچ تھا جن کے بارے میں اس وقت بلوچستان سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ ماہل بلوچ کو سیٹلائیٹ ٹاﺅن کے علاقے میں ایک پارک کے قریب سے گرفتار کیا گیا اور ان سے ایک خود کش جیکٹ بھی برآمد کی گئی۔
تاہم اس وقت کوئٹہ سے دہشتگردی کے الزام میں گرفتار خاتون ماہل بلوچ کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ ان کا کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے کوئی تعلق نہیں اور ان کے پاس سے خود کش جیکٹ کی برآمدگی کے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
سی ٹی ڈی کا دعویٰ تھا کہ ماہل بلوچ کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ سے ہے تاہم بیلہ کیمپ پر حملہ کرنے والی ماہل کے بارے میں کالعدم بی ایل اے کا دعوی ہے کہ وہ ان کے مجید برگیڈ کی رکن تھیں جن کا عرفی نام ذلان کرد تھا۔
ایسے میں حالیہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر گذشتہ سال کوئٹہ سے گرفتار ہونے والی ماہل کو ہی بمبار قرار دیا گیا اور ان کی تصاویر لگائی گئیں تاہم بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گومازی سے تعلق رکھنے والی ماہل ضمانت پر رہا ہو گئی تھیں۔
ان کی دو بیٹیاں ہیں اور وہ بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ کی بھابی ہیں۔