طالبان کی خواتین پر نئی پابندیاں، یو این کے خدشات مسترد

کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) طالبان کے ترجمان نے یو این افغان مشن کی سربراہ کے خواتین سے متعلق مزید سخت ملکی قوانین پر خدشات کو ’متکبرانہ‘ قرار دیا۔ روزا اوتن بائیفا نے خواتین پر نئی پابندیوں کو افغانستان کے مستقبل کے لیے ’پریشان کن‘ قرار دیا تھا۔

افغانستان میں حکمران طالبان نے اپنے نئے اور مزید سخت قوانین، جن کے تحت انہوں نے اخلاقی ضابطوں کا تعین کیا ہے، پر اقوام متحدہ کے خدشات اور تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔

ان قوانین کے تحت افغانستان میں خواتین کو عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور عوامی مقامات پر ان کے بولنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے افغان مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ قوانین افغانستان کے مستقبل کا ایک ”پریشان کن منظر‘‘ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوانین خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر ”پہلے ہی عائد ناقابل برداشت پابندیوں‘‘ کی توسیع ہیں، یہاں تک کہ ان کے تحت ”خواتین کی آواز‘‘ گھر سے باہر سنائی دینےکو بھی بظاہر غیر اخلاقی قرار دیا گیا ہے ۔

طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں ان افراد کو”تکبر‘‘ کے خلاف متنبہ کیا، جو ان کے بقول اسلامی قانون سے واقف نہیں ہیں، خاص طور پر وہ غیر مسلم افراد جو ان قوانین پر تحفظات یا اعتراضات کا اظہار کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”ہم ان قوانین کو مکمل تفہیم اور اسلامی اقدار کے احترام کے ساتھ تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں بغیر سمجھے ان قوانین کو مسترد کرنا تکبر کا اظہار ہے۔‘‘

افغانستان میں طالبان نے گزشتہ بدھ کو برائی کی حوصلہ شکنی اور نیکی کو فروغ دینے کے لیے ملک میں قوانین کا پہلا مجموعہ جاری کیا تھا۔

انہی میں سے ایک قانون کے تحت عورت کے لیے گھر سے باہر اپنا چہرہ، جسم اور آواز چھپانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ قوانین جانداروں کی تصاویر پر بھی پابندی عائد کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ اوتن بائیفا کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اور ایک خوفناک انسانی بحران کے درمیان، افغان عوام اس سے کہیں بہتر کے مستحق ہیں کہ نماز کے لیے دیر کرنے، مخالف جنس سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے فرد پر نگاہ ڈالنے جو ان کے خاندان کا فرد نہیں یا کسی عزیز کی تصویر رکھنے پر انہیں دھمکیاں دی جائیں یا جیل میں ڈال دیا جائے۔‘‘

یواین اے ایم اے کے اس بیان کے جواب میں مجاہد نے مزید کہا، ”ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے خدشات امارت اسلامیہ کو اسلامی قانون کی پاسداری اور نفاذ کے عزم سے باز نہیں رکھ سکتے۔‘‘

عام طور پر طالبان پر عوامی سطح پر تنقید سے گریز کرنے والے ملک جاپان نے بھی ان قوانین میں خواتین پر عائد پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کابل میں قائم جاپانی سفارت خانے نے پیر کے روزسوشل میڈیا پلیٹ فارم نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ طالبان حکام پر زور دیتا رہے گا کہ وہ ملک کے مستقبل کے لیے ”تعلیم، ملازمت اور نقل و حرکت کی آزادی کے لیے افغان خواتین اور لڑکیوں کی آواز کو سنیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں