بلوچستان: مسلح حملوں اور جھڑپوں میں 38 عام شہریوں سمیت 73 افراد ہلاک

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) پاکستانی فوج کے مطابق حملوں میں چودہ فوجی اور پولیس اہلکار جبکہ اکیس عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 38 عام شہری بھی ہلاک کیے گئے۔

پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے پولیس اسٹیشنوں، ریلوے لائنوں اور شاہراہوں پر مسلح حملوں اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائیوں میں کم ازکم 73 افراد ہلاک ہو گئے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کیے گئے یہ حملے گزشتہ کئی سالوں میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پرکی جانے والی عسکری کارروائیاں تھیں۔ یہ ان حملہ آوروں کی جانب سے قدرتی وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی علیحدگی حاصل کرنے کی دہائیوں سے جاری کوششوں کا حصہ ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا، ”یہ حملے پاکستان میں انتشار پھیلانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہیں۔‘‘ پاکستانی فوج نے پیر کے روز کہا کہ بلوچستان میں کیے گئے اب تک کے سب سے بڑے حملوں کے بعد لڑائی میں 14 فوجی اور پولیس اہلکار اور 21 عسکریت پسند مارے گئے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 38 شہری بھی مارے گئے۔

مقامی حکام نے بتایا کہ ان میں سے 23 افراد کو مسلح افراد نے ایک ہائی وے پر سفر کے دوران گاڑیوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ان لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے اہل خانہ کے سامنے قتل کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے انٹیلی جنس پر مبنی مزید کارروائیاں شروع کی جائیں گی۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کے باہمی روابط کو روکنے کے لیے موبائل ڈیٹا سروسز کو کم کرنے کا اشارہ دیا۔ انہوں نے کہا، ”وہ حملے شروع کرتے ہیں، اس کی فلم بناتے ہیں اور پھر اسے پراپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔”

‘تاریک آندھی طوفان‘

مسلح علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جسے وہ ”ہیروف‘‘یا ”تاریک آندھی طوفان‘‘ کہتے ہیں۔ صحافیوں کو ایک بیان میں انہوں نے گزشتہ روز مزید حملوں کا دعویٰ کیا جن کی ابھی تک حکام نے تصدیق نہیں کی ہے۔

گروپ نے کہا کہ اس کے ایک خاتون سمیت چار خودکش حملہ آوروں نے گوادر کے جنوبی بندرگاہی ضلع بیلہ میں نیم فوجی اڈے پر بھی حملہ کیا۔ پاکستانی حکام نے خودکش دھماکوں کی تصدیق نہیں کی تاہم صوبائی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس اڈے پر حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

بی ایل اے صوبے میں سرگرم اُن کئی نسلی باغی گروپوں میں سب سے بڑا ہے، جو کئی دہائیوں سے مرکزی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ان باغی گروہوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی قدرتی گیس اور معدنی وسائل کا ناجائز استحصال کرتی ہے۔

یہ گروہ صوبے کی آزادی اور صوبے سے چین کی بے دخلی چاہتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کریں گی اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گی۔ یورپی کمیشن کی ترجمان نبیلہ مصرالی نے کہا کہ یورپی یونین اس حملے کی مذمت کرتی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان کی سرحدیں ایران اور افغانستان دونوں سے ملتی ہیں۔ یہ رقبے کے لحاظ سے تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے سب چھوٹا اور غربت کی اعلی سطح کے ساتھ سب سے زیادہ پسماندہ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں