برلن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) اسرائیل نے اتوار کے روز علی الصبح اعلان کیا کہ اس نے ایران نواز لبنانی ملیشیا حزب اللہ کی جانب سے ممکنہ حملوں کے پیش نظر اس مسلح گروہ کے لبنان میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ کا کہنا تھا کہ اس نے گزشتہ ماہ ایک اسرائیلی حملے میں اپنے ایک کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کی طرف تین سو بیس راکٹ داغے ہیں۔تشدد کی اس تازہ لہرسے پرے بھی دونوں ممالک مسلح تنازعات اور جنگوں کی کئی دہائیوں پر محیط تاریخ رکھتے ہیں۔
1948ء سے قبل
لبنان نے 1943ء میں فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کی اور اسرائیلی ریاست کے قیام سے قبل ہی لبنان میں یہ بحث ہو رہی تھی کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہونا چاہییں۔
لبنانی حکومت میں ہمیشہ سے مذاہب یا نسلوں کے اعتبار سے متنوع نمائندگی موجود رہی ہے۔ ان میں سے بعض ایک ہمسایہ یہودی ریاست کو قبول کرنے پر آمادہ تھے مگر لبنانی ریاست میں ایسے عناصر بھی موجود تھے، جو سمجھتے تھے کہ ایک ہی وقت میں اسرائیل اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ بہتر تعلقات ممکن نہیں ہوں گے۔
1948ء
14 مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے جانے کا اعلان کیا گیا تو ٹھیک اس روز مصر، شام، اردن، عراق اور لبنان نے اس نئی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد تب برطانیہ کے زیرانتظام فلسطینی خطے میں پرتشدد واقعات شروع ہو گئے، جس پر اقوام متحدہ نے اس علاقے کو ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ زیادہ تر عرب ممالک نے مسترد کر دیا۔
یہ جنگ 1949 کے آغاز تک لڑی گئی، جس کے بعد اسرائیل اور عرب ریاستوں بشمول لبنان نے ایک سرحدی لکیر پر اتفاق کیا۔ اسے گرین لائن یا 1949 کی آرمسٹس سرحد پکارا جاتا ہے۔ متعدد عرب ریاستیں اسے عارضی سرحد قرار دیتی تھیں، مگر لبنان نے اسے مستقل سرحد قرار دیا۔
اس جنگ کے اختتام پر اسرائیل نے اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق فلسطین کے لیے تفویض کردہ علاقے میں سے قریب چالیس فیصد پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ تب تقریباﹰ ایک لاکھ فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑ کر لبنان میں پناہ لینا پڑی۔ اسی تناظر میں ان مہاجرین کے تحفظ اور دیکھ بھال کے لیے اقوام متحدہ نے عالمی ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین UNRWA قائم کیا تھا۔
1965ء
انیس سو پینسٹھ تک لبنانی اسرائیلی سرحد پرسکون رہی مگر پھر فلسطینی قوم پرست گروپ الفتح نے اسرائیل پر سرحد پار سے حملے شروع کر دیے۔ دیگر فلسطینی گروپوں نے بھی شام اور اردن سے اسرائیل پر حملے شروع کر دیے۔ اسرائیل کے معاملے پر لبنان میں عوامی رائے منقسم رہی اور اس کی وجہ متنوع نسلی اور مذہبی آبادی تھی۔
1967ء
اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھی کہ مصر، شام اور اردن نے اسرائیل پر حملے کی تیاری شروع کر دی، جب کہ اسرائیل نے کسی ممکنہ حملے سے بچنے کے لیے مصری فضائیہ پر پیشگی حملہ کر دیا۔ اسرائیل نے اس ‘چھ روزہ جنگ‘ میں ان عرب ممالک کو شکست سے دوچار کر دیا۔ لبنان گو کہ اس جنگ میں پوری طرح شامل نہیں ہوا تھا، تاہم مزید ہزاروں فلسطینی مہاجر سرحد عبور کر کے لبنان پہنچ گئے۔
1969ء
لبنان نے قبول کر لیا کہ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) ملک میں قائم 16 فلسطینی مہاجر بستیوں کا انتظام فلسطینی مسلح جدوجہد کمان کے نام سے قائم گروپ کے ذریعے سنبھالے گی۔ یہ گروہ بعد میں ان مہاجر بستیوں میں پولیس کی طرز کی فورس بن گیا۔ اس اقدام سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں میں اضافہ ہو گیا۔
1970ء
اردن میں شاہی خاندان کے خلاف بغاوت کی ناکامی کے بعد فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن نے اپنا ہیڈکوارٹر اردن سے لبنانی دارالحکومت بیروت منتقل کر دیا جب کہ اس کا فوجی ہیڈکوارٹر جنوبی لبنان میں بنایا گیا۔ اس سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی شدید تر ہو گئی۔
1973ء
انیس سو بہتر میں میونخ اولمپکس میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اسرائیلی ایتھلیٹس کے یرغمال بنائے جانے کے واقعے کے انتقام کے طور پر اسرائیل نے ‘خدا کا قہر‘ نامی آپریشن شروع کیا اور اسرائیلی خصوصی فورسز لبنانی ساحل پر اتر گئیں۔ اس آپریشن میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے کئی اہم رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔
1978ء
لبنان سے فلسطینی عسکری گروہوں کے اسرائیل میں سرحد پار حملوں کا سلسلہ جاری رہا، جس کے تناظر میں اسرائیل نے جنوبی لبنان میں فوج کشی کر دی۔ اس آپریشن میں اسرائیل میں ایک بس ہائی جیک کر کے اس میں سوار 30 اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے واقعے میں شامل جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔ اسرائیلی فوج اس کارروائی میں سرحد سے 29 کلومیٹر دور دریائے لیتانی تک پہنچ گئی تھی۔ اسی صورت حال میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی ایک قرارداد میں اسرائیلی فوج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا اور وہاں امن فوج تعینات کی۔
1982ء
جون 1982 میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے تعاقب میں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر لبنان پر فوج کشی کر دی جب کہ لبنان میں جنوبی لبنانی آرمی یا SLA کے نام سے جانے جانے والے مسیحی جگنجو گروپوں کو سرمایہ اور تربیت فراہم کرنا شروع کر دی۔ لبنان میں اسرائیلی حمایت یافتہ ایس ایل اے اور شامی حمایت یافتہ دیگر عسکری گروہوں کے درمیان لڑائی 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کا باعث بنی۔
انتہائی دائیں بازو کے مسیحی قوم پرستوں اور دیگر فورسز نے فلسطینی مہاجر بستیوں میں سینکڑوں افراد کو قتل کیا۔ اسرائیل کی لبنان میں فوجی مداخلت وہاں شیعہ عسکری گروہ حزب اللہ کے قیام کا باعث بنی۔ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل اس گروہ نے ایرانی حمایت کے ساتھ اسرائیل کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔
1985ء
تین برس بعد اسرائیل نے بیروت سے اپنی فوج نکال لی مگر دریائے لیتانی تک کا علاقہ اپنے قبضے میں کر لیا۔ اسرائیلی اصرار تھا کہ اسے اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے بفرزون درکار ہے۔ اسرائیل کو اس سلسلے میں ایس ایل اے کی مدد دستیاب رہی ۔ سن 2000 میں تاہم اسرائیل نے اقوام متحدہ کی 1978 کی قرارداد کے مطابق تمام لبنانی علاقے سے اپنی فوج نکال لی۔
1993ء
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جھڑپوں میں دونوں طرف عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے آپریشن ‘احتساب‘ شروع کیا۔ یوں لبنان میں سات روزہ جنگ لڑی گئی۔ ایک ہفتے بعد گو کہ امریکی ثالثی میں فائربندی ہو گئی، مگر اس دوران لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔
1996ء
اپریل 1996 میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر اسرائیل نے ‘انگوروں کے قہر‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کیا۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں موجود عام شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے کہا۔ اسرائیلی منصوبہ تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے تو لبنانی حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔
اس سترہ روزہ آپریشن میں اسرائیل نے لبنان میں چھ سو فضائی حملے کیے، جب کہ اس دوران بیروت کا ہوائی اڈہ اور کئی پاور اسٹیشن تباہ کیے گئے۔ اس کے جواب میں حزب اللہ نے اسرائیل کو راکٹ حملوں کا نشانا بنایا۔ اس دوران دونوں طرح لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔
اس سترہ روزہ آپریشن کا اختتام امریکی کوشش کے نتیجے میں اس نکتے پر ہوا کہ عام شہری جائز جنگی ہدف نہیں ہیں۔
2000ء
اسرائیل نے جنوبی لبنان سے فوج بلیو لائن تک نکال لی۔ بلیو لائن اقوام متحدہ کی قائم کردہ عارضی سرحد تھی، جہاں امن فوج کو نگرانی کی ذمہ داری دی گئی۔
2006ء
حزب اللہ نے سرحد پار حملے کر کے دو اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا جب کہ کئی دیگر ہلاک ہو گئے۔ حزب اللہ نے یرغمالی اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل نے یہ مطالبہ مسترد کرتے ہوئے پانچ روزہ فوجی مہم شروع کر دی، جسے جنگِ جولائی پکارا جاتا ہے۔
اس دوران ایک ملین لبنانی اور نصف ملین اسرائیلی بے گھر ہوئے، جب کہ جنگ میں بارہ سو لبنانی اور ایک سو اٹھاون اسرائیلی شہری ہلاک ہو ئے۔ اس دوران لبنان کا شہری ڈھانچہ بری طرح تباہ ہو گیا۔
اس مسلح تنازعے کے بعد اقوام متحدہ نے حزب اللہ کو غیرمسلح ہونے اور اسرائیل کو لبنان سے فوج نکالنے کے لیے کہا، ساتھ ہی یونی فِل نامی امن فوج کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اسے شرپسندانہ کارروائیاں روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ہی اس جنگ میں فتح کا اعلان کرتے رہے، تاہم اس برس اکتوبر تک اسرائیل نے لبنانی علاقوں سے زیادہ تر فوج نکال لی۔
2023ء
سن 2006 سے ہیلبنانی اسرائیلی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ تاہم اکتوبر دو ہزار تیئیس میں جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشتت گردانہ حملے کے بعد لبنانی اسرائیلی سرحد پر کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں اتوار پچیس اگست 2024 خصوصا ﹰ ایک تباہ کن دن تھا، جب حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ اور میزائل داغے گئے جب کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں درجنوں مقامات کو نشانہ بنایا۔