تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی سی) تاریخ میں پہی مرتبہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں یہودیوں کے ’گائیڈڈ ٹورز‘ کے لیے فنڈز مختص کرنے پر راضی ہوا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی پیشرفت ہے۔
یہودی پاور پارٹی کے رکن وزیر امیچائی ایلیاہو کی قیادت میں اسرائیلی وزارتِ ورثہ نے مشرقی یروشلم کے پرانے شہر میں اس نئے منصوبے کے لیے رقم مختص کی ہے۔
اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق وزارت کی طرف سے مختص رقم دو ملین شیکل (اسرائیلی کرنسی) ہے جو تقریباً 550 ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔
وزیر الیاہو، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر کی قیادت میں کافی عرصے سے ان دوروں کے لیے ضروری منظوری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’مذہبی جنگ بھڑک سکتی ہے‘
ان ’گائیڈڈ ٹورز‘ کو فنڈ دینے کا اعلان بین گویر کے متنازعہ بیانات کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں انھوں نے یروشلم کے ’قانونی اور تاریخی سٹیٹس کو‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے ماؤنٹ ٹیمپل یعنی ہیکل سلیمانی کے مقدس مقام پر یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
بین گویر کے بیانات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا دفتر فوری طور پر یہ وضاحت دینے پر مجبور ہوا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے ’سٹیٹس کو‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
’سٹیٹس کو‘ سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے تحت یہودی مغربی دیوار تک مخصوص صورتوں میں جا سکتے ہیں لیکن وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔
یروشلم میں اسلامی اوقاف کے محکمے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل بن گویر اور الیاہو جیسے اپنے انتہا پسند وزرا کے ذریعے خطے میں کشیدگی کو بھڑکانا چاہتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت جنگی حالات اور ہنگامی قوانین سے فائدہ اٹھا کر اسلحے کے زور پر اپنا کنٹرول مسلط کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں ہونے والی خلاف ورزیاں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کر سکتی ہیں جو ایک مذہبی جنگ کو بھڑکانے کا سبب بن سکتے ہیں اور ایسی جنگ کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہو گا۔
انھوں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ اسلامی دنیا اور عرب قوم مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں اپنے فرائض سے ’غافل‘ ہیں اور اسرائیل کی اجارہ داری کو روکنے کے لیے سیاسی طور پر کچھ نہیں کر رہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ’مسلمانوں کا خالص حق‘ ہے۔
اسلامی اوقاف کے محکمے کے اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ان کا محکمہ مسجد اقصیٰ میں اپنے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہے اور اسرائیلی وزرا کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کے لیے اسرائیلی حکومت کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب بین گویر نے یہودیوں کو ٹمپل ماؤنٹ میں عبادت کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں دو ہزار سے زیادہ یہودی اسرائیلی پرچم لہراتے ان کے ساتھ ٹمپل ماؤنٹ کے صحن میں داخل ہوئے جس پر خاصا ردِعمل سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے اعلان کیا تھا کہ عبادت گاہ کے صحنوں کے اندر یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دی جائے گی، جو ان تاریخی معاہدوں میں ایک واضح تبدیلی ہے جو غیر مسلموں کو مسجدِ اقصیٰ کے صحن میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں اور معاہدوں کے لحاظ سے صرف مخصوص اوقات میں ہی یہودیوں کو اندر جانے کی اجازت ہے۔
حالیہ چند مہینوں اور سالوں میں ایسی بہت سے ویڈیو وائرل ہوئی ہیں جن میں یہودیوں کو دستخط شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
لیکن اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ’سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی ’غیر قانونی‘ اقدام کو ہونے سے روک رہی ہے۔
یاد رہے یروشلم تینوں مذاہب اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے پرانے شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جسے مسلمان ’الحرم الشریف‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
الحرم الشریف کمپاوئنڈ میں مسلمانوں کے دو مقدس مقامات موجود ہیں جن میں ’ڈوم آف دی راک‘ اور اقصیٰ مسجد شامل ہیں جسے آٹھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اس پورے کمپاونڈ کو ’الاقصی مسجد‘ کہا جاتا ہے۔ تقریباً 35 ایکڑ رقبے پر محیط اس مقام کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں جبکہ ’ڈوم آف دی راک‘ کو بھی یہودی مذہب میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں کئی پیغمبروں نے عبادت کی جن میں حضرت ابراہیم، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس اور حضرت عیسیٰ شامل تھے۔
مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلام کو سنہ 620 میں ایک ہی رات کے دوران مکہ سے الاقصی مسجد لایا گیا جہاں سے انھوں نے معراج کا سفر کیا۔ اسی لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب یہودیوں کا ماننا ہے کہ شاہ سلیمان نے تین ہزار سال قبل پہلی یہودی عبادت گاہ اسی مقام پر تعمیر کیا تھا۔
ان کے مطابق اس مقام پر تعمیر ہونے والی دوسری یہودی عبادت گاہ کو رومیوں نے 70 قبل از مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔
آگ پر تیل کا کام
اسرائیل کے سیاسی تجزیہ کار یوو سٹرن نے بی بی سی کو بتایا کہ بین گویر مسجدِ اقصیٰ یا ٹیمپل ماؤنٹ کے ’سٹیٹس کو‘ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ ’آگ پر تیل‘ ڈال رہے ہیں۔
سٹرن کا خیال ہے کہ بین گویر کے بیانات کشیدگی بڑھانے کا سبب ہیں اور ان کا اثر خطے پر پڑے گا۔
ان کا خِیال ہے کہ بین گویر کے اقدامات کا فوری اور انتہائی خطرناک ردِعمل آنے کا امکان ہے اور اس پر فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی سخت ردِعمل آئے گا۔
اسرائیلی تجزیہ کار کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی سلامتی اور کشیدگی کی تناظر میں بین گویر کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں اور ’سٹیٹس کو‘ میں تبدیلی کرتے ہوئے ٹیمپل ماؤنٹ پر صورتحال کو بدل سکتے ہیں۔
مقامی اور بین الاقوامی برداری میں اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ’الحرم الشریف‘ یا مسجدِ اقصیٰ کا ’سٹیٹس کو‘ برقرار رہنا چاہیے اور یہ کہ اس میں کوئی بھی تبدیلی کسی بڑی کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے۔
سٹرن نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ بین گویر کے پاس پولیس کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل میں پولیس اب ایک آزاد ادارہ نہیں ہے اور بین گویر ذاتی طور پر پولیس کی پالیسی کو کنٹرول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کیا یہودی مذہب یہودیوں کو الحرم الشریف میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے؟
الٹرا آرتھوڈوکس سیاسی جماعت دیگل توراہ سے منسلک اخبار ییتد نیمان نے عربی میں ایک شہ سرخی شائع کی جس میں قومی سلامتی کے وزیر بین گویر کی ٹیمپل ماؤنٹ سے متعلق سرگرمیوں اور اس سائٹ کے بارے میں ان کے تبصروں کی مذمت کی گئی ہے۔
عربی شہ سرخی میں لکھا تھا ’وزیر بین گویر بار بار نازیبا بیانات دے رہے ہیں اور مقدس شہر کے باشندوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔‘
نسل در نسل سے چلتے آ رہے یہودی قوانین کے تمام ثالثوں (یعنی یہودی راہبوں) کی رائے ہے کہ یہودیوں کو مذہبی طور پر ٹمپل ماؤنٹ پر عبادت کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔
وزیر کے آرمی ریڈیو کو دیے انٹرویو کے دوران اس بیان کے حوالے سے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں ایک عبادت گاہ تعمیر کریں گے، حریدی اخبار نے بن گویر کو ایک ’آگ لگانے والا سیاسی کارندہ‘ قرار دیا جو ’خطے میں پھر سے آگ بھڑکا رہا ہے۔‘
اسرائیلی ربی الہانان ملر کا کہنا ہے کہ قانونی نقطہ نظر سے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں یہودیوں کے داخلے کے حوالے سے تنازعہ ہے۔ یہودی اسے ٹمپل ماؤنٹ کے نام سے جانتے ہیں۔
آرتھوڈوکس یہودی یروشلم کے پرانے شہر میں مغربی دیوار پر عبادت کرتے ہیں۔
اسرائیل میں سپریم ربینیٹ جو ایک سرکاری مذہبی ادارہ ہے، نے یہودیوں کے وہاں آنے پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ظہور اور ’گائے کو ذبح‘ کیے جانے سے قبل اس مقام پر ان کا داخلہ اس جگہ کی بے حرمتی ہے۔
ربی ملر کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ فتویٰ اس جگہ کی مسلمانوں یا فلسطینیوں کے نزدیک اہمیت کے باعث دیا گیا ہے بلکہ اس کی وجہ مذہبی ہے جو یہودیوں کو ایک خاص وقت پر یہاں داخل ہونے، اس پر کنٹرول حاصل کرنے اور یہاں عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
تاہم ملر کا کہنا ہے کہ سخت گیر یہودیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے مابین ٹمپل ماؤنٹ پر یہودیوں کے عبادت کے معاملے پر تنازعہ ہے اور اس کی وجوہات سیاسی ہیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ اس علاقے میں یہودیوں کی موجودگی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی تباہی بڑے پیمانے پر خونریزی کو ہوا دے سکتی ہے جو عرب اور اسلامی ممالک کو مشتعل کر سکتا ہے۔
’اسرائیلی وزیر دفاع نے ایکس پر لکھا کہ ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے ’سٹیٹس کو‘ کو تبدیل کرنا ایک خطرناک، غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور بین گویر کے بیانات ’اسرائیلی ریاست کی سلامتی کو خطرے‘ میں ڈال رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ نے کہا کہ بین گویر کے بار بار متضاد بیانات دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اپنی حکومت کا کنٹرول کھو چکے ہیں۔
عرب اور بین الاقوامی ردعمل
فلسطینی صدارتی ترجمان نبیل ابو رودینا نے بین گویر کے بیانات کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اقصیٰ اور مقدس مقامات ایک سرخ لکیر ہیں، ہم انھیں کبھی بھی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
جب کہ اردن کی ہاشمی بادشاہت نے مسجدِ اقصیٰ کے ’سٹیسٹس کو‘ میں کسی بھی تبدیلی کی مذمت کرتے ہوئے اس حوالے سے واضح بین الاقوامی مؤقف کا مطالبہ کیا ہے۔
مصری وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق مصر نے ان بیانات کی مذمت کی ہے اور انھیں غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے ایسی جاری ’اسرائیلی خلاف ورزیوں‘ کو خطرناک قرار دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بن غفیر کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے مملکت کی جانب سے ’شدت پسندانہ اور اشتعال انگیز‘ بیانات کو مسترد کیا ہے اور مسجد اقصیٰ میں ’قانونی اور تاریخی سٹیٹس کو‘ کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
جب کہ اقوام متحدہ نے بین گویر کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بگاڑنے کا خطرہ مول لیا۔
چند افراد کی مذمت کے باوجود اس حوالے سے تقریباً اسرائیل میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
حتیٰ کہ حزب اختلاف کے رہنما یائر لاپڈ جنھوں نے بین گویر کے حالیہ اقدامات پر تنقید کی ہے، وہ بھی باقیوں کی طرح مسجدِ اقصیٰ کے کمپاؤنڈ جسے ٹمپل ماؤنٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے، اس کے صحنوں پر ’اسرائیل کے حق‘ کی بات کرتے ہیں۔
لیکن اس معاملے پر اسرائیلیوں کے اختلاف کا تعلق نیتن یاہو کی حکومت کے بعض انتہا پسند وزراء کے اقدامات سے ہے۔
تاہم اس معاملے میں اسرائیلوں کے مابین اختلافِ رائے کی بنیاد نیتن یاہو کی کابینہ کہ چند انتہا پہسند وزرا ہیں۔