کوئٹہ (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبے بلوچستان میں حالیہ پُرتشدد واقعات کے بعد مختلف شہروں میں حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں جب کہ پولیس نے ان واقعات پر مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق یہ مقدمات موسیٰ خیل، بولان، مستونگ، لسبیلہ اور قلات میں ہونے والے واقعات پر درج کیے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں انسدادِ دہشت گردی، قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیم ملوث ہے۔
ان کے بقول اس سلسلے میں کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق دہشت گردوں کے فنگر پرنٹس نادرا جب کہ جسمانی اعضاء کے نمونے پنجاب فرانزک لیب کو ارسال کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ 26 اگست کو بلوچستان کے متعدد اضلاع مستونگ، قلات، لسبیلہ، موسیٰ خیل، گوادر، تربت اور دیگر علاقوں میں میں بیک وقت متعدد حملے ہوئے تھے۔
ان حملوں میں حکام کے مطابق 14 سیکیورٹی اہلکار اور 21 حملہ آوروں سمیت 72 افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریش آرمی (بی ایل اے) نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دوسری جانب منگل کی شب مسلح افراد نے ایک بار پھر مستونگ میں ایک تھانے پر حملہ کیا۔
اسسٹنٹ کمشنر مستونگ اکرم حریفال نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں اس حملے کی تصدیق کی۔ ان کے بقول مسلح افراد نے گزشتہ شب مستونگ میں لیویز تھانے پر حملہ کیا جسے فورسز نے ناکام بنا دیا۔
مستونگ لیویز کنٹرول کے ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس حملے میں تاحال کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
تربت یونیورسٹی میں فورسز کی کارروائی
ادھر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان کے ضلع کیچ میں تربت یونیورسٹی میں چھاپہ مارنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
اس کارروائی کے دوران ہاسٹل میں لسبیلہ واقعے میں مبینہ طور پر ملوث خاتون خودکش حملہ آور ماہل بلوچ کے کمرے کی تلاشی لی گئی۔ اس دوران مختلف سامان بھی قبضے میں لیا گیا۔
یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فورسز نے ہاسٹل میں رہائش پذیر دیگر طلبہ سے بھی پوچھ گچھ کی۔
بلوچستان پولیس حکام نے حالیہ واقعات کے بعد کوئٹہ میں کسی بھی دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔
حکام نے تمام پولیس اسٹیشنز اور سیکیورٹی فورسز کے دفاتر میں سیکیورٹی سخت کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو جدید اسلحہ فراہم کرنے اور گشت بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔
‘شورش ختم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی’
حالیہ واقعات کے بعد بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک بار پھر شورش میں اضافہ ہوا ہے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں کیا بلوچستان کے اراکینِ اسمبلی اس قابل ہیں کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں جا کر عوام کے سامنے ریاست کا مؤقف رکھیں۔
ان کے بقول وفاق اور پاکستان کی فوج ان واقعات پر جو کارروائی کریں گے وہ نظر آئے گا۔ لیکن بلوچستان کے اپنے عوامی نمائندے اس میں کیا کردار ادار کرسکتے ہیں؟ کوئٹہ اور اسلام آباد میں بیٹھ کر بیانات جاری کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان اراکینِ اسمبلی کو اپنے اپنے علاقوں میں جانا ہوگا اور شورش ختم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر یہ اراکین ایسا نہیں کر سکتے تو صوبے کی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
ایک روز قبل ملک کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گرد صرف ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ ان کے خلاف کسی آپریشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
منگل کو کوئٹہ میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ “وزیراعظم سمیت سب بلوچستان کی صورتِ حال پر تشویش میں ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے جو حالیہ واقعات ہوئے ہیں وہ نا قابلِ برداشت ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردوں نے چھپ کر حملہ کیا ہے۔