لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ مبارک ثانی کیس میں انھوں نے جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک مذہبی جماعت کی طرف سے قتل سے متعلق فتوے کو غیرآئینی اور غیرشرعی قرار دیا تو اس کے بعد انھیں چار سے پانچ سو دھمکی آمیز پیغامات ملے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ توہین رسالت کے معاملے پر شدت پسندی میں اضافہ ہو گیا ہے اور ملک میں قوانین کی بھی پرواہ نہیں کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے توہین کی بھی ہو تو اس کی سزا دینا ریاست یا حکومت کا کام ہے۔
ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ قانون میں ہجوم کے ذریعے تشدد کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ان کے مطابق توہینِ مذہب کے قوانین میں سزائے موت سمیت چار مختلف سزائیں ہیں مگر ’عام طور پر چاروں جرائم کے ارتکاب کی سزا ایک ہی سمجھ لی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’گستاخی رسالت‘ کے مرتکب شخص کی قانون میں سزا تو سزائے موت ہے مگر ’قرآنِ کی بے حرمتی‘ کی سزا عمر قید ہے۔ اسی طرح ’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘ کی خلاف ورزی کی سزا تین سال قید ہے۔ انبیا، صحابہ و اہل بیت کی شان میں گستاخی کی سزا سات برس قید ہے۔
ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ توہینِ رسالت کے معاملے پر کسی کو قتل کا فتویٰ دینے کا اختیار نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے کہا کہ ’قتل کا فتویٰ دینا یا قانون ہاتھ میں لے کر خود انصاف کی کوشش غیر شرعی اور غیر آئینی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’عدم برداشت کے باعث لوگ مذہبی معاملات میں کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ شریعت کسی شخص کو دوسرے کی جان لینے کا اختیار نہیں دیتی۔‘