’بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے ہر آنے والے دن جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جمعہ کی شام لاپتہ افراد کے کیمپ میں ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ 2000 میں شروع ہوا جو کہ ابھی تک جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو بھی حکومت برسراقتدار آتی ہے وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کا اعلان کرتی ہے لیکن بعد میں وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے میں ملک کے طاقتور ادارے ملوث ہیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوران حراست قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ گذشتہ روز خضدار ہسپتال میں ایسے چار افراد کی لاشیں لائی گئیں جن کو رواں سال جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

نصراللہ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ افغانستان سے محمود لانگو اور ایران سے استاد کمبر بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آج لاپتہ افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز حکومت پاکستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کا مطالبہ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لاپتہ افراد پر الزام ہے انھیں منظر عام پر لا کر عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو عدالتیں ان کو سزا دیں گی۔ انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

دوسری جانب سرکاری حکام نے سرکاری ریاستی اداروں پر لوگوں کو جبری طور لاپتہ کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض عناصر ریاستی اداروں کوبدنام کرنے کے لیے جبری گمشدگی کے معاملے کو پروپگینڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

بلوچستان میں 2023 کے دوران سکیورٹی کے مسائل، انسانی حقوق کی پامالیاں اور سیاسی بدنظمی عروج پر رہی: ایچ آر سی پی

پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) کی سالانہ رپورٹ میں ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر جاری کردہ ’رپورٹ برائے 2023‘ میں بلوچستان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی نشاندہی کی ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق صوبے میں 2023 میں عسکریت پسندوں کی جانب سے 110 حملوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مارچ 2023 میں بولان میں ایک پولیس قافلے پر خودکش حملے میں نو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے، جبکہ ستمبر میں مستونگ میں ایک مسجد کے قریب خودکش حملے میں عام شہریوں سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ نومبر میں تربت میں نامعلوم افراد نے چھ پنجابی مزدوروں کو گولی مار کر قتل کر دیا۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات تشویش کا باعث رہے اور ان واقعات میں مجرموں کو سزا نہ ملنا اور حکومتی بے حسی کا عنصر نمایاں رہا۔

ایچ آر سی پی کا مزید کہنا ہے کہ اس عرصے میں صوبے میں اظہار رائے کی آزادی محدود رہی، صحافی سکیورٹی فورسز، علیحدگی پسند گروہوں اور قبائلی رہنماؤں سمیت مختلف عناصر کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف کے باعث پریس پر پابندیوں کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتے رہے اور صوبے میں قانون کی حکمرانی کمزور رہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں