بلوچستان: موسی خیل میں فوجی کارروائیوں میں پانچ شدت پسند ہلاک

راولپنڈی (ڈیلی اردو) صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں قومی شاہراہ پر حملے اور فائرنگ کے مقام پر جلی ہوئی گاڑیوں کے قریب کھڑے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں 26 اگست کو ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی پوری پلاننگ کی گئی اور ان میں ایک دہشت گروہ ملوث نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں نے مل کر یہ کارروائیاں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو واضح علم ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہے اور دہشتگردوں کو اب چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

سینیٹ میں بلوچستان میں ہونے والے حملوں کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے محسن نقوی کا کہنا تھا کہ دشمن نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کو خراب کرنے کی سازش کی ہے۔

یاد رہے پاکستان اکتوبر میں ایس سی او کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں شرکت کے لیے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی دعوت دی گئی ہے۔

محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بہت سے عناصر کو ایس سی او کانفرنس پاکستان میں ہونے کی تکلیف ہے۔ اور دشمن نہیں چاہتا کہ ایس سی او کانفرنس پاکستان میں ہو اور یہ واقعات کانفرنس کے خلاف سازش ہے۔

خیال رہے بلوچستان میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 26 اگست کو صوبے بھر میں آپریشن ’ھیروف‘ کا اعلان کیا تھا۔ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بُگٹی کے مطابق ان حملوں میں 38 شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ ان کی جوابی کارروائی میں21 شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ اس آپریشن کے دوران 14 فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے 30 اگست کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 26 اگست کو ہونے والے حملوں میں ملوث افراد کی تلاش کے لیے سکیورٹی فورسز صوبے میں وسیع پیمانے پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن (آئی بی اوز) کر رہی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 29/30 اگست کی رات ضلع کیچ، پنجگور اور ژوب میں تین الگ الگ آئی بی اوز میں پانچ شدت پسند ہلاک ہوئے جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں تین شدت پسند زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ان حملوں میں ملوث تمام مجرموں، سہولت کاروں اور معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیاں تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

محسن نقوی نے سینیٹ کو بتایا کہ بلوچستان میں پائیدار امن کے لیے وزیراعظم نے گذشتہ روز سیٹک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے سیاسی جماعتوں، ڈاکٹر عبدالملک سمیت دیگر لوگوں سے تفصیلی مشاورت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو نہ ماننے والے اور بندوق اٹھانے والے دہشتگرد ہیں۔ ہمارا پیغام واضح ہے کہ بندوق اٹھانے والوں کا پورا بندوبست ہو گا۔

محسن نقوی نے سینیٹ کو بتایا کہ پاکستان اور ریاست کو ماننے والے ہمارے لیے محترم ہیں اور انھیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو ماننے والوں کے اختلافات ہو سکتے ہیں جنھیں حل کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست مخالفین کے خلاف سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔

محسن نقوی نے بتایا کہ وزیراعظم نے بلوچستان کی سی ٹی ڈی کے لیے پانچ ارب مختص کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آٹھ ارب روپے بلوچستان کے ڈویژنز میں عوامی مسائل کے حل کے رکھے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بلوچستان میں وفاق کے افسروں کی کمی پورا کرنے کے لیے بھی پالیسی کا اعلان کیا ہے اور تقریباً 40 افسر فوری طور پر بلوچستان جا رہے ہیں۔

محسن نقوی نے سینیٹ کو مزید بتایا کہ گذشتہ روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں 12 سے زائد فیصلے ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے خود چار روز میں دو بار بلوچستان کا دورہ کیا اور مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں