برلن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) تین سال قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ افغان شہریوں کو جرمنی سے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جرمن حکومت کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمنی نے آج جمعے کے روز پہلی بار اٹھائیس افغان شہریوں کو افغانستان ڈی پورٹ کر دیا ہے۔ جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان ہیبسٹریٹ نے واپس بھجوائے گئے تمام افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیا لیکن ان کے جرائم کی وضاحت کے لیے تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اس معاملے کو جرمنی کی سکیورٹی سے جوڑا ہے۔ جرمنی کے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے برلن حکومت کو کابل میں حکمرانوں کے ساتھ روابط کے لیے دیگر ذرائع کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
تاہم اس بات کا امکان نہیں دیکھا جا رہا کہ جرمن حکومت کے تازہ اقدام سے جرمنی اور طالبان کے درمیان تعلقات کو وسعت ملے گی، خاص طور پر گزشتہ ہفتے افغانستان میں متعارف کرائے گئے ان قوانین کے بعد، جن میں عورتوں کے لیے گھر سے باہر اپنا چہرہ، جسم اور آواز چھپانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹس میں طالبان کے اخلاقیات سے متعلق نئے قوانین کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ جبکہ اسٹیفان ہیبسٹریٹ کا کہنا ہےکہا کہ ان افغانوں کی ملک بدری کا عمل مہینوں سے جاری تھا۔
افغان باشندوں کی ملک بدری جرمنی کے شہر زولنگن میں کیے گئے چاقو کے ایک مہلک حملے میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے۔ اس حملے میں مشتبہ شخص ایک شامی شہری ہے، جس نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔
ملزم کو گزشتہ سال بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا لیکن وہ مبینہ طور پر کچھ دیر کے لیے غائب ہونے کے بعد ملک بدری سے بچ گیا تھا۔ اسے اتوار کو قتل اور دہشت گرد تنظیم میں رکنیت کے شبے میں مزید تفتیش اور ممکنہ فرد جرم کے تحت حراست میں لینے کا حکم دیا گیا تھا۔
دہشت گرد گروہ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ نے ثبوت فراہم کیے بغیر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس انتہا پسند گروپ نے اپنی نیوز ویب سائٹ پر کہا تھا کہ حملہ آور نے عیسائیوں کو نشانہ بنایا اور اس نے یہ حملے ‘فلسطین اور ہر جگہ مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لیے کیے۔‘ تاہم ان دعووں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
جرمن صوبوں سیکسنی اور تھورنگیا میں اتوار کو ہونے والے علاقائی انتخابات سے قبل امیگریشن کے موضوع پر بھی بحث ہو رہی ہے، جہاں امیگریشن مخالف پارٹیاں جیسے کہ پاپولسٹ الٹرنیٹو فار جرمنی کی اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔
رواں برس جون میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جرمنی افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے ایسے مہاجرین کو دوبارہ ملک بدر کرنا شروع کر دے گا، جو جرائم میں ملوث ہوں۔ انہوں نے یہ بیان ایک افغان تارک وطن کی طرف سے چاقو کے حملے میں ایک پولیس افسر کی ہلاکت اور چار افراد کے زخمی ہونے کے بعد دیا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وزیر داخلہ نینسی فیزر نے جمعرات کو جرمنی میں چاقو رکھنے سے متعلق قوانین میں سختی لانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جرمن حکومتی اتحاد کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک بدری کو آسان بنانے کا عہد بھی کیا تھا۔ جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل جولیا ڈکرو نے جمعے کو ایک بیان میں افغانوں کی ملک بدری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انتخابی مہم کے دوران سیاسی دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان محفوظ نہیں ہے اور الزام لگایا کہ افغان شہریوں کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔