اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے ملک کی اندرونی سلامتی صورتِ حال سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
چھبیس اگست کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹارگٹ کلنگ اور خود کش حملے میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں رواں ہفتے ایک حاضر سروس لیفٹننٹ کرنل اور فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے تین اہلکاروں سمیت سات افراد کے اغوا کی دو مختلف وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
ایسے میں حکومتِ پاکستان ان تمام واقعات کا ذمہ دار افغانستان میں موجود افغان طالبان کو گردانتی ہے۔ تاہم افغان حکومت کی جانب سے ان الزامات کی سختی سے تردید کی جا رہی ہے۔
شدت پسندی کے امور پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی داؤد خٹک پاکستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ سویلین قیادت کی کمزوریوں کو قرار دیتے ہیں۔
ان کے بقول دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے پاس اس وقت کوئی جامع پالیسی نہیں ہے اور ملک کو عالمی سطح پر بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آخری مرتبہ 2014 میں آپریشن ‘ضربِ عضب’ کی صورت میں دہشت گردوں کے خلاف منظم کارروائی کی تھی لیکن اس آپریشن کی توجہ دہشت گردوں کے خاتمے کے بجائے انہیں سرحد پار دھکیلنے پر تھی۔
داؤد خٹک کے مطابق خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر فوجی آپریشن کی بازگشت ہے۔ لیکن دونوں صوبوں میں مسائل کا حل فوجی طاقت کے بجائے سیاسی طور نکالنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کے خیال میں کسی بھی آپریشن کے لیے فریقین کے درمیان اعتماد کا ہونا ضروری ہے جو بدقسمتی سے اس وقت دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں سیکیورٹی معاملات بگڑ رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کا کہنا ہے کہ بلوچ شدت پسندوں اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی افغان سرزمین سے ہو رہی ہے۔ جہاں سے انہیں مالی امداد کے ساتھ ساتھ وافر مقدار میں اسلحہ بھی مل رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے اس لیے اس کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن ضروری ہے لیکن بلوچستان میں ملکی داخلی پالیسیوں کی وجہ سے حالات بگڑے ہوئے ہیں جس پر کام ہو سکتا ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان میں غلط حکومتی پالیسیوں کا دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت صوبے میں ریاستی رٹ کمزور ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے گھر کو بہتر بنانا ہو گا۔
ان کے بقول، بلوچ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے تاہم ٹی ٹی پی کے خلاف بات چیت کے بجائے ایک منظم فوجی آپریشن کیا جانا چاہیے۔
پاکستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیمیں مضبوط اور ان کے نیٹ ورکس کی جڑیں کافی گہری ہو گئی ہیں جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ہاتھ لگ چکا ہے جو پاکستانی میں کی جانے والی کارروائیوں میں اس اسلحہ کا استعمال کرتی ہیں۔
طالبان حکومت کے فوجی سربراہ قاری فصیح الدین فطرت رواں ہفتے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالعدم ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں افغان سرزمین استعمال نہیں ہوتی۔
ان کے بقول ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر سے ہی منصوبہ بندی اور حملوں پر عمل درآمد کرتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو اقتدار سنبھالے تین سال مکمل ہو چکے ہیں اور اقتدار کے ساتھ ساتھ زمینی صورتِ حال بھی طالبان کی مکمل گرفت میں آ چکی ہے۔
رواں ہفتے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے سمجھوتے پر یقین نہیں رکھتا۔
صحافی داؤد خٹک کے بقول 2018 کے بعد سے حکومت اور سیکیورٹی اسٹبیلشمنٹ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی ہیں جب کہ خفیہ ادارے (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لفٹیننٹ جنرل فیض حمید انفرادی طور پر کوششیں کرتے رہے ہیں۔