’پختونستان‘ کا تنازع: جب باجوڑ کے پہاڑ افغان توپ خانے کی گھن گرج سے گونج اٹھے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ستمبر 1960 کی اُس صبح، باجوڑ کے سنگلاخ پہاڑوں کی ہوا میں تناؤ کی بو تھی، جیسے کچھ بڑا ہونے والا ہو۔ صبح کی پہلی کرنیں نمودار ہوتے ہی بلند پہاڑوں کی خاموشی افغان توپ خانے کی اچانک گھن گرج سے ٹوٹ گئی۔

کچھ ہی دیر میں سرحد پار کُنڑ سے ہزاروں افغان بندوقیں اٹھائے، پرجوش نعرے لگاتے، پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ ان کے قدموں سے اٹھنے والی دھول میں ایک تصادم کی پیش گوئی تھی۔ افغان فوج نے سرحد پار کر لی تھی اور باجوڑ اب اس جنگ کا محاذ بن چکا تھا جسے سرحد کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔

یہ واقعہ تقریبا 64 سال پرانا ہے جب افغانستان کی فوج نے باقاعدہ طور پر پاکستان پر حملہ کیا اور دونوں ممالک کی تاریخ کے ایک نئے متنازع باب کا آغاز کیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ تھے اور سنہ 1947 میں جب پاکستان اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو افغانستان نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی تھی۔

لیکن 1960 میں افغان فوج پاکستان میں کیوں داخل ہوئی اور اس میں معاملے میں پختونستان کا نام کیوں آیا؟

فقیر ایپی سے داؤد خان تک

ڈیوڈ گارٹنسٹائن راس اور تارا واسیفی نے اپنے مضمون ’افغانستان-پاکستان تعلقات کی فراموش شدہ تاریخ‘ میں جامعہ کراچی میں امریکی تاریخ کے وزیٹنگ پروفیسر جارج مونٹاگنو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد کئی سال تک افغانستان کی حکومت کی ایما پر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں وفاداریاں بدلنے کی کوشش میں بڑی مقدار میں رقم، گولا بارود اور یہاں تک کہ ٹرانزسٹر ریڈیو بھی تقسیم کیے جاتے رہے۔

پاکستان بننے کے بعد شمالی وزیرستان میں فقیر ایپی نے پاکستان کے خلاف ایک آزاد مملکت کا اعلان کر دیا تھا جس کی ماسکو، کابل اور دلی نے کافی تشہیر کی۔

وزیرستان کے ایک معروف قبائلی ملک اور مؤرخ لائق شاہ درپہ خیل مرحوم نے اپنی کتاب ’وزیرستان‘ میں لکھا ہے کہ آزاد پختونستان نامی ریاست کے قیام کے اعلان کے بعد افغان حکومت نے اس نام نہاد ریاست کے لیے عملہ اور اس کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مالی وسائل فراہم کیے۔ تاہم بعد میں پاکستان کے سفارتی دباؤ سے مجبور ہو کر 7 ستمبر 1948 کو افغانستان نے ایپی فقیر کو ایک کھلی وارننگ دی کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر قسم کی سرگرمیوں سے باز آ جائیں۔

لیکن وقت کے ساتھ افغانستان کی حکومت نے، ڈیوڈ گارٹنسٹائن راس اور تارا واسیفی کے مطابق، پاکستان کے پشتون علاقوں میں حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ، زمینی حملے بھی بڑھا دیے۔

ایسا ہی ایک حملہ 1950 میں ہوا جب بین الاقوامی خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق پاکستان نے دعویٰ کیا کہ 30 ستمبر 1950 کو اس کی شمالی سرحد پر افغان قبائلیوں کے ساتھ ساتھ باقاعدہ افغان فوجیوں نے حملہ کیا، جو بلوچستان میں چمن سے 30 میل شمال مشرق میں پاکستان میں داخل ہوئے اور جنھیں ’چھ دن کی لڑائی کے بعد واپس سرحد پار بھگا دیا گیا۔‘

افغانستان نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ حملہ آور پشتون قبائلی تھے جو ایک آزاد پختونستان کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ لیکن، راس اور واسیفی کے مطابق، بعد میں افغانستان کے اپنی فوج کے قبائلیوں کے لباس میں استعمال کو دیکھتے ہوئے، پاکستان کا دعویٰ قابل اعتبار معلوم ہوتا ہے۔

پچاس کی دہائی میں سفارتی تعلقات مزید بگڑ گئے اور باہمی تجارت 18 ماہ کے لیے بند رہی۔ 1956 سے 1959 کے دوران سرحدی جھڑپیں عام ہو گئیں۔ راس اور واسیفی نے لکھا ہے کہ 1955 میں پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر رہا ہے جس کے جواب میں، افغان وزیر اعظم محمد داؤد خان نے 29 مارچ 1955 کو ریڈیو کابل سے پاکستان کے اقدامات پر تنقید کی۔

البرٹا یونیورسٹی کے ایس ایم ایم قریشی نے لکھا ہے کہ ’پاکستان کے جھنڈے کو اتار کر اس کی توہین کی گئی اور کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی چانسری پر [پختونستان] پرچم لہرایا گیا۔ افغان حکومت کے زیر اثر کابل، قندھار اور جلال آباد میں مظاہرے بھڑک اٹھے۔‘

باجوڑ پر افغان فوج کا حملہ

پیٹر ہاپکرک اپنی کتاب ’دی گریٹ گیم: دی سٹرگل فار ایمپائر ان سنٹرل ایشیا‘ میں لکھتے ہیں کہ باجوڑ میں مسئلے کی پہلی علامات توپوں کے شور سے نہیں بلکہ بغاوت کی سرگوشیوں کی شکل میں ظاہر ہوئیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کے وفادار مقامی قبائلیوں نے پہاڑوں میں عجیب نقل و حرکت کی اطلاع دی، ایسے لوگوں کی موجودگی کی جو بغاوت اور فتح کی باتیں کرتے تھے۔‘

ابوبکر صدیق اپنی کتاب ’دی پشتون کوئسچن: دی انریزولوڈ کانفلکٹ بیٹوین افغانستان اینڈ پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن صبح کی پہلی کرنیں نمودار ہوتے ہی باجوڑ کے بلند پہاڑوں کی خاموشی افغان توپ خانے کی اچانک گھن گرج سے ٹوٹ گئی۔ ’افغان فوج نے سرحد پار کر لی تھی اور باجوڑ اب اس جنگ کا محاذ بن چکا تھا جسے سرحد کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔‘

این ٹالبوٹ ’پاکستان: اے ماڈرن ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’باجوڑ مہم افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طاقت کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھانے کی پہلی مربوط کوشش تھی۔ افغان حکومت کی کوشش تھی کہ باجوڑ اور دیر میں مقامی قبائل کے درمیان پہلے سے موجود تنازعات کو مزید بھڑکایا جائے۔‘

احمد شائق قاسم اپنی کتاب ’افغانستان پولیٹیکل سٹیبلٹی: اے ڈریم انریئلائزڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’افغانستان نے نواب آف دیر اور باجوڑ کے خان آف جندول کے ایک مقامی قبائلی جھگڑے کو اپنی پختونستان مہم کے لیے استعمال کرتے ہوئے قبائلی لشکر بھیجا جسے سویلین بھیس میں ریگولرفوج کے عناصر کی حمایت حاصل تھی۔‘

انھوں نے ڈبلیو کے فریزر۔ٹائیٹلر کی افغانستان پر ایک کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’افغان حکومت کو امید تھی کہ احتجاج اور بدامنی سے پختونستان کا مسئلہ اجاگر ہوگا اور افغان وزیر خارجہ اسی ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی توجہ اس جانب مبزول کروائیں گے۔‘

’تاہم باجوڑ کے لوگوں نے افغان در اندازی کے خلاف مزاحمت کی اور قبائلی فوج کو شکست ہوئی اور جو بچ رہے، آپس میں لڑتے ہوئے واپس افغانستان لوٹے۔‘

اس جنگ میں پاکستان کے نیم عسکری دستے باجوڑ سکاؤٹس کے ساتھ ساتھ باجوڑ کے نواب آف خار کی قیادت میں مقامی قبائلی بھی لڑے اور، راس اور واسیفی کے مطابق، ’افغان فوجی بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔‘

جوزف جے زاسلوف اپنی کتاب ’دی افغان پاکستان کانفلکٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ اس دراندازی کا مقصد مقامی قبائل کو پاکستانی حکومت کے خلاف اُکسانا تھا لیکن اس کوشش کا اختتام ایک فیصلہ کن شکست کے ساتھ ہوا۔

باجوڑ کے بعد دیر پر حملہ

اگلے سال افغان قبائلی اور باقاعدہ فوجی نواب آف دیر جہان خان کی مدد کے لیے باجوڑ کی وسیع مہم کے ایک حصے کے طور پر دیر کے علاقے میں بھی داخل ہوئے۔ مارک سائیگز اپنی کتاب ’وار ان دی ٹرائبل زونز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دیر مہم کا آغاز جتنا غیر متوقع تھا، اتنا ہی شدید تھا۔‘

’پاکستان کی سرحدی چوکیوں پر افغان فوجی تنگ راستوں سے ہوتے ہوئے نمودار ہونے لگے۔ چند منٹوں ہی میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور مارٹر گولوں کی آوازیں فضا میں گونجنے لگیں۔ یہ محض سرحدی حملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک مکمل حملہ تھا۔‘

حسن عباس نے اپنی کتاب ’دی فرنٹیئر ابلیز‘ میں لکھا ہے کہ ’افغان کمانڈرز کا خیال تھا کہ وہ جلدی سے اس علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے پشتون قبائل کے درمیان ایک وسیع بغاوت کو بھڑکا سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے دن گزرتا گیا اور پاکستانی کمک پہنچنے لگی، یہ واضح ہوگیا کہ جنگ ان کی امیدوں کے مطابق آسان نہیں ہوگی۔‘

’افغان لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا گیا اور اس بار پاکستان نے اپنی فضائیہ کا استعمال بھی کیا۔‘ اس افغان حملے سے پاکستانی حکومت کو نواب کی معزولی کے اقدامات اور باجوڑ میں سات اکتوبر 1961 کو براہ راست عمل داری کا جواز ملا۔

ٹیلبوٹ اِملے نے اپنی کتاب ’دی فرنٹیئر کوئسچن‘ میں لکھا ہے کہ افغان حکومت کو پاکستانی فوج کے فوری اور مؤثر ردعمل اور مقامی حمایت کی کمی کے باعث ایک اور ناکامی ہوئی۔

شجاع نواز اپنی کتاب ’کراسڈ سورڈز: پاکستان، اٹس آرمی اینڈ دی وارز ودن‘ میں بیان کرتے ہیں کہ سنہ 1960 اور 1961 میں باجوڑ اور دیر کے واقعات شمال مغربی قبائلی علاقوں پر پاکستانی ریاست کے کنٹرول کو مضبوط کرنے میں اہم تھے۔

باجوڑ اور دیر میں افغان حملے کے اثرات

راجا انور کی تدوین کردہ ’دی ٹریجڈی آف افغانستان: دی سوشل، کلچرل، اینڈ پولیٹیکل امپیکٹ آف دی سوویت انویژن‘ کے مطابق افغان رہنماؤں نے ان دراندازیوں کو پشتون بغاوت کے ایک وسیع تر محرک کے طور پر دیکھا، جسے بالآخر پختونستان کے قیام کی طرف لے جانا تھا۔ ’تاہم، ان کارروائیوں کی ناکامی کو مقامی حمایت کی کمی کے بجائے پاکستان کے زبردست فوجی ردعمل اور بیرونی طاقتوں کی حمایت سے منسوب کیا گیا۔‘

شجاع نواز کے مطابق باجوڑ اور دیر کے واقعات کے علاقائی جیوپولیٹکس پر اہم اثرات مرتب ہوئے۔ ان کے مطابق ’پاکستان کی فوج کی تیز رفتار اور فیصلہ کن کارروائی نے نہ صرف قبائلی علاقوں پر اس کا کنٹرول مضبوط کیا بلکہ افغانستان اور اس کے سوویت حمایتیوں کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان اور امریکا کے درمیان سٹریٹجک (تزویراتی) تعلقات مضبوط ہوئے جبکہ افغانستان سوویت بلاک کے قریب ہوا جس سے جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کی تقسیم مزید گہری ہوئی۔‘

ڈیورنڈ لائن: تاریخ، نتائج، اور مستقبل کے مصنف بیجان عمرانی کے مطابق باجوڑ اور دیر واقعات نے ڈیورنڈ لائن کو ایک عملی بین الاقوامی سرحد کے طور پر مزید مستحکم کیا، باوجود اس کے کہ افغان احتجاج جاری رہا، اور سرحد پار پشتون قبائل پر کابل کے اثر و رسوخ کی حدود کو نمایاں کیا۔

15 اگست 1961 کو پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جلال آباد اور قندھار میں اپنے کونسل خانے بند کرنا چاہتا ہے اور اس نے پشاور، کوئٹہ اور پارہ چنار میں افغان کونسل خانے بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات چھ ستمبر کو مکمل طور پر ٹوٹ گئے۔

سفارتی تعلقات ٹوٹنے سے، مارٹن ایونز اور انتھونی ہائیمن کے مطابق، افغان معیشت پر تباہ کن اثرات پڑے کیوں کہ سب سے زیادہ محصولات کسٹم ڈیوٹی سے آ رہے تھے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی آ گئی اور مہنگائی اور اشیا کی قلت ایک مسئلہ بن گئی۔

سرحد بند ہونے سے افغانستان میں پھلوں کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا جبکہ دوسری جانب پاکستان میں ٹرکنگ کمپنیاں بھی متاثر ہوئیں۔ پابندی سے پہلے سو سے زیادہ ٹرک ہر روز افغانستان سے پاکستان ایک ہزار ٹن کے قریب انگور لے جاتے تھے۔ افغانستان کے کئی امدادی اور ترقیاتی منصوبے بھی رک گئے کیوں کہ سب ہی سے متعلقہ اشیا پاکستان ہی کے راستے آنا تھیں۔

سنہ 1963 میں افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے محمد داؤد سے چھٹکارا حاصل کر لیا جو پختونستان کے لیے کوشاں تھے اور ان کی کوششوں کی وجہ سے ہی افغانستان اور پاکستان جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔

’دی کولڈ وار آن دی پرفیری‘ میں رابرٹ جے مکماہن کہتے ہیں کہ ’آخر میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کو کم کرنے میں بڑی طاقتوں نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اس سے ایک بڑا علاقائی بحران پیدا ہو سکتا ہے جو انہیں محاذ آرائی تک لے جا سکتا ہے۔‘

ایسے میں ایران کے شاہ نے افغان اور پاکستان سے وفود کو مذاکرات کی دعوت دی اور یوں 22 مہینے طویل تعطل کے بعد 28 مئی 1963 کو ایک معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں کاروباری، کونسلر اور سفارتی تعلقات بحال ہو گئے جس کے بعد اگلی ایک دہائی میں افغان حکومتیں پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں۔

تاہم 1973 میں ظاہر شاہ کو معزول کرتے ہوئے محمد داؤد اقتدار میں آئے تو تلخیوں کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں