بونیر (ڈیلی اردو) صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں شرپسندوں نے سرکاری پرائمری اسکول کو نذر آتش کرنے کے بعد جلے ہوئے اسکول کا دورہ کر کے آنے والی پولیس ٹیم پر میراگئی کے علاقے ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کردیا تاہم خوش قسمتی سے کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
بونیر کے ضلعی پولیس افسر(ڈی پی او) کے ترجمان اسرار خان نے نجی ٹی وی چینل ڈان ڈاٹ نیوز کو بتایا کہ دونوں واقعات چارغرزئی کے علاقے کی سرحد کے ساتھ واقع میراگئی کے گاؤں میں پیش آئے۔
انہوں نے بتایا کہ رات گئے نامعلوم شرپسندوں نے لڑکے اور لڑکیوں کے مشترکہ سرکاری پرائمری اسکول کو نذر آتش کر دیا، ہماری پولیس پارٹی جلائے گئے اسکول کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد واپس آرہی تھی کہ تو پشلور شانگلہ سے گل بانڈئی کو ملانے والی گاؤں کی ناہموار سڑک پر ایک آئی ای ڈی پھٹ گئی تاہم کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
ترجمان نے بتایا کہ ان دونوں کارروائیوں میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان ملوث ہے کیونکہ شانگلہ بونیر بارڈر پر کئی بار ان کی نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔
شانگلہ کے ڈی پی او نے بھی نجی ٹی وی چینل ڈان ڈاٹ نیوز کو ان واقعات کی تصدیق کی۔
گاؤں کے ایک مقامی شخص اور عینی شاہد نے بتایا کہ لڑکیوں کو اسکول سے نکلنے اور سڑک پار کرنے کے چند منٹ بعد مقامی لوگوں نے دھماکے کی آواز سنی۔
علاقے کے سابق رکن صوبائی اسمبلی فیصل زیب خان نے بھی بتایا کہ اس علاقے میں لڑکیوں کا ایک اسکول واقع ہے لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ دہشت گرد اسکول کی طالبات کو نشانہ بنانے آئے تھے یا پولیس کو۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکا اسکول کی طالبات کے اس جگہ سے گزرنے کے بعد ہوا۔
سابق رکن اسمبلی نے دعویٰ کیا کہ بونیر اور شانگلہ کی سرحد پر سیکیورٹی کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے اور جب وہ 2022 سے پہلے ایم پی اے تھے تو رات کے وقت ان کے گھر پر دہشت گردوں نے کئی بار حملہ بھی کیا تھا۔