بلوچستان میں طلبہ رہنما، سماجی کارکن اور صحافی کے نام فورتھ شیڈول میں شامل

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’ایک مسلح تنظیم سے تعلق جوڑنے کا الزام نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ یہ ایک سرکاری ملازم کے کریئر اور ایک پرامن شہری کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے، اس الزام کے بعد سے میری فیملی، بیوی بچے، والدین ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔‘

یہ کہنا ہے عابد میر کا جن کا نام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔

گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے بعد بلوچستان حکومت نے دہشتگردی ایکٹ کے تحت درجنوں افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے، جن میں طلبہ رہنما، سماجی کارکن اور صحافی شامل ہیں۔

انسداد دہشتگردی کے قانون 1997 کے مطابق اگر کوئی خفیہ ادارہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائے جس کی کسی کالعدم تنظیم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستگی ہو تو اُسے ایک زیر نگرانی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جسے فورتھ شیڈول کہا جاتا ہے۔

عابد میر درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میں کہانیاں اور تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شش ماہی رسالہ مہر نامہ بھی شائع کرتے ہیں اور اردو مضمون کے لیکچرر ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے فورتھ شیڈول میں شامل ہونے کا نوٹیفیکشن سوشل میڈیا پر ہی دیکھا ہے، یہ انھیں ذاتی طور پر موصول نہیں ہوا اور نہ کسی سرکاری ادارے نے ان سے اس بارے میں رابطہ کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر میں ادبی اور سماجی تحریریں لکھتا رہتا ہوں لیکن ایسا کبھی کچھ نہیں لکھا جسے ملک دشمنی کے زمرے میں شامل کیا جائے، ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کی ہے۔‘

اس بارے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہرنگ بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس (فہرست) میں ہمارے بہت سے کارکنوں اور حمایتیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس فہرست کو ابھی تک عوامی سطح پر جاری نہیں کیا گیا ہے اس لیے یہ کبھی بھی کسی کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے، کوئی سفر کر رہا ہو یا کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شامل ہو، یا پھر انھیں ڈرانے کے لیے بھی جیسے بہت سے پروفیسرز کا نام بھی اس میں شامل ہے اور انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے کہ آپ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرمیوں میں شامل ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ وہی رویہ ہے جو ریاست کی جانب سے بلوچستان کے لیے کبھی نہیں بدلا ہے۔ اس طریقہ کار سے جو بلوچستان کی عوام اب سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے انھیں ہراساں کیا جا رہا تاکہ وہ ریاست کے لیے کام کریں اور کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔‘

’جس ضلع میں ہیں اُسی ضلع میں نظر بند رہتے ہیں‘

عابد میر نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور اچانک ان کا تبادلہ ڈیرہ بگٹی کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ دسمبر 2024 تک سٹڈی لیو پر تھے اور اصولاً اس دوران ان کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی، اپنے مضمون میں اعلٰی ڈگری لینے والے ٹیچر کو پوسٹ گریجویٹ کالج سے اٹھا کر ڈیرہ بگٹی کے کالج میں پھینکا گیا جہاں اردو کی انٹرمیڈیٹ کی صرف ایک کلاس ہے؟‘

دوسری جانب گلزار دوست کا نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔ وہ تربت میں جبری گمشدگیوں اور دیگر مقامی مسائل کے حوالے سے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ بلوچ یکہجتی کمیٹی کے اسلام آباد میں دھرنے میں بھی شریک رہے اور اس سے قبل خود بھی تربت سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کر چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کا تعلق کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ سے جوڑا گیا ہے۔

گلزار دوست کا کہنا ہے کہ ’فورتھ شیڈول میں نام ہونے کی وجہ سے وہ جس ضلع میں ہیں اُسی ضلع میں نظر بند رہتے ہیں۔ ضلع کے باہر نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً پولیس تھانے میں حاضری یا آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

’جائیداد کے کاغذات، گھر اور کاروبار کا حساب دینا ہوتا ہے۔ بینک اکاؤنٹ اور قومی شناختی کارڈ بمعہ فیملی اور اپنے پاسپورٹ کی چھان بین بھی ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے تحت لوگوں اور اجتماع سے دور رکھنے کے لیے پارک، عوامی اجتماع کے مقامات اور کوئی سرگرمی کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’مزاحمتی تنظیم سے میرا نام جوڑا گیا ہے جبکہ مزاحمتی تنظیموں سے میرا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، میں فقط ایک سیاسی و سماجی کارکن ہوں۔‘

حکومت بلوچستان کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکشن کے مطابق مشتبہ شخص کو ’متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو چال چلن کی ضمانت دینی ہو گی اور پاسپورٹ متعلقہ تھانے میں جمع کروانا ہو گا۔ اپنی رہائش کا مقام چھوڑنے یا کہیں جانے اور کسی سے ملاقات کے لیے تھانے کو پیشگی اطلاع دے کر اجازت لینا ہو گی۔‘

اس کے علاوہ حکومت کالعدم قرار دیے گئے شخص کی نقد رقم یا املاک جزوی یا مکمل طور پر ضبط کر سکتی ہے۔

اس کے علاوہ محکمہ سی ٹی ڈی خاندان کے دیگر افراد کے اثاثوں کی بھی چھان بین کر سکتی ہے کہ کہیں یہ دہشت گرد سرگرمیوں کے ذریعے تو نہیں حاصل کی گئیں۔

بی بی سی اردو کے پاس ایسے متعدد نوٹیفیکشین موجود ہیں جن میں متعلقہ شخص کا نام تو تحریر ہے لیکن اس کا تعلق کسی کالعدم جماعت سے ظاہر نہیں کیا گیا صرف لفظ ’کالعدم جماعت‘ تحریر کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ شخص تین سال تک زیر نگرانی رہے گا اور اس فیصلے کے خلاف سرکار کو اپیل کی جا سکتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’انسداد دہشتگردی کے قانون 1997 کے مطابق اگر کوئی خفیہ ادارہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائے جس کا دہشتگرد تنظیم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستگی ہو تو اُسے ایک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے جسے فورتھ شیڈول کہا جاتا ہے۔‘

’حکومت کا یہ عمل انتہائی غلط ہے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے‘

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے پاس قانونی طور پر یہ اختیار موجود ہے کہ کسی بھی شخص کا نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ پر فورتھ شیڈول میں شامل کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے یہ تو واضح نہیں کیا کہ ان افراد کی تعداد کتنی ہے جن کے نام 22 جولائی کے بعد فورتھ شیڈیول میں شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فورتھ شیڈول کے معاملے پر کچھ سیاسی رہنماؤں کے بتائے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ نئے یا پرانے نام ملا کر بھی تعداد اتنی نہیں جتنی ظاہر کر کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔‘

دوسری جانب صوبائی وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوادر میں راجی مچی یعنی قومی اجتماع کے بعد سے بلوچستان کے مختلف اضلاع سے 300 کے قریب لوگوں کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔

اہلکار کے مطابق جن لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں ان میں سے 130 کے قریب لوگوں کا تعلق کوئٹہ سے ہے جبکہ باقی افراد کا تعلق دیگر بلوچ آبادی والے اضلاع سے ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ان لوگوں کے نام محکمہ داخلہ نے خود سے شامل نہیں کیے ہیں بلکہ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ انٹیلیجینس کمیٹیاں موجود ہیں جن کی سفارش پر محکمہ داخلہ نے ان لوگوں کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا ہے۔‘

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تین ہزار افراد کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔

صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر، سرکاری ملازمین، طلبہ رہنما اور صحافیوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے اور وہ ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو حب الوطن ہیں۔۔۔ کیوں بے گناہوں کو بی ایل اے کے حوالے کر رہے ہیں۔‘

صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ نے انھیں جواب دیا کہ ’یہ لوگ غیر ریاستی عناصر کے سہولت کار اور ہمدرد ہیں پھر کیوں انھیں اس طرح چھوڑیں بقول ان کے وہ حکومت کی تنخواہ لے رہے ہیں اور وہ ریاست مخالف ہیں اور ان عناصر کو سپورٹ کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جن لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں وہ ذمہ دار شہری ہیں۔ ان میں آفیسرز، ٹیچرز اور سیاسی رہنما اور کارکن ہیں۔‘

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ ’بی ایس او پجار کے چیئرمین بوہیر صالح بلوچ اور ایک ٹیچر عابد میر کا بھی نام شامل کیا گیا ہے۔

’حکومت کا یہ عمل انتہائی غلط ہے جس کے نتائج کسی طرح بھی اچھے نہیں ہوں گے‘

’ہم سی ٹی ڈی والوں کے پاس نہیں گئے جس پر سریاب تھانے سے ہمیں فون آیا‘

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین سمیت تین عہدیداروں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔

بی ایس او کے چیئرمین شکور بلوچ نے بتایا کہ ان کی تنظیم میں سے جن لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں ان میں اس کے سمیت بالاچ قادر بلوچ اور صمند بلوچ شامل ہیں۔

شکور بلوچ نے بتایا کہ ان کے پاس اس حوالے سے کوئی فہرست نہیں ہے تاہم انھیں سی ٹی ڈی کی جانب سے کال آئی جس میں انھیں کہا گیا کہ وہ پیش ہو جائیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سی ٹی ڈی والوں کے پاس تو نہیں گئے جس کے بعد سریاب پولیس کی جانب سے ہمیں پیش ہونے کے لیے فون آیا۔‘

شکور بلوچ نے بتایا کہ ’ہم پولیس کے پاس جائیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ وہ ہم سے کیا پوچھیں گے۔‘

ادھر چیرمین بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بالاچ قادر نے بھی اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے لگتا ہے کہ حکومت بلوچستان میں سیاسی عمل کو بند کرنا چاہتی ہے لیکن بلوچستان کے طلبا اور سیاسی کارکن اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت بلوچستان نے مجھ سمیت بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل صمند بلوچ، مرکزی سیکریٹری اطلاعات شکور بلوچ اور دیگر سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کر دیے ہیں۔‘

’ہم نے آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے ہمیشہ انسانی حقوق اور انصاف کے لیے آواز بلند کی ہے جو ہمارا آئینی حق ہے۔ حکومت کی جانب سے سنگین الزامات لگا کر جعلی بیانیے کے تحت ہمیں فورتھ شیڈول میں شامل کرنا ناصرف مضحکہ خیز بات ہے بلکہ اس سے واضح ہوا کہ بلوچستان میں پرامن سیاسی جدوجہد کے دروازے بند کر کے سیاسی کارکنان کو دھکیلا جا رہا ہے۔ اس طرح کے غیرآئینی ہتھکنڈے ہماری پرامن جدوجہد کو دبا نہیں سکتے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں