جنیوا (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز/آر ٹی ایس) سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت نے معروف اسلامی سکالر طارق رمضان کو ریپ کے الزام پر تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔ سنہ 2023 کے دوران انھیں ریپ اور جنسی جبر کے الزامات سے بری کیا گیا تھا تاہم اپیلز کورٹ نے اُس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سوئس نشریاتی ادارے آر ٹی ایس کی رپورٹ کے مطابق عدالت کے 28 اگست 2024 کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مئی 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور طارق رمضان کو تین سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کینٹن جنیوا کی حکومت نے ایک بیان میں فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ کئی شہادتیں، اسناد، طبی نوٹس اور ماہرین کی آرا شکایت کنندہ کی شہادت کی تصدیق کرتی ہیں۔
سوئس شہری طارق رمضان مصر کی اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے پوتے ہیں۔ ایک سوئس خاتون نے ان پر الزام لگایا تھا کہ 2008 کے دوران جنیوا کے ایک ہوٹل میں طارق رمضان نے ان کا ریپ کیا تھا۔
طارق رمضان: ایک معروف اسلامی سکالر جن پر کئی خواتین نے ریپ کا الزام لگایا
کسی زمانے میں اسلامی ادب کے حوالے سے اپنے جدید خیالات کے لیے مشہور طارق رمضان کے کیریئر کے لیے یہ مقدمہ ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔
2000 کی دہائی کے اوائل میں جب یورپ شدت پسندوں کے حملوں اور بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات سے نبرد آزما تھا، اس وقت طارق رمضان ایک معقول اور سمجھدار شخصیت کے طور پر سامنے آئے تھے۔
وہ دہشت گردی کی مذمت کرتے تھے اور سزائے موت کی مخالفت کرتے تھے۔ حتی کہ تیونس، مصر، سعودی عرب، لیبیا اور شام میں ان کا داخلہ ممنوع ہو چکا تھا کیونکہ انھوں نے ان ممالک میں جمہوریت نہ ہونے پر تنقید کی تھی۔
2004 میں انھیں ٹائم میگزین کے دنیا کے 100 سب سے زیادہ بااثر لوگوں میں سے ایک منتخب کیا گیا تھا۔ 2007 میں وہ سینٹ انتھونی کالج آکسفورڈ میں اسلامیات کے پروفیسر بن گئے۔ ان کے ناقدین بھی بہت تھے، خاص طور پر فرانس میں، جہاں کئی سرکردہ ماہرین تعلیم نے ان پر یہود دشمنی کا الزام لگایا تھا۔
ایک وہ وقت بھی تھا جب وہ برطانیہ کے دفتر خارجہ میں مذہب کی آزادی سے متعلق ایڈوائزری گروپ کا حصہ تھے۔
لیکن 2017 میں رمضان کا عروج اس وقت ختم ہوا جب ان پر ایک فرانسیسی خاتون نے ریپ کا الزام لگایا۔
جب وہ کیس منظر عام پر آیا تو مزید خواتین سامنے آئیں جنھوں نے دعویٰ کیا کہ طارق رمضان نے ان پر حملہ کیا یا پھر زبردستی سیکس کے لیے مجبور کیا۔
ان میں ایک خاتون، جنھوں نے اسلام قبول کیا تھا مگر اپنی شناخت ظاہر نہیں کی، کا کہنا تھا کہ طارق رمضان نے 2008 کے دوران جنیوا کے ایک ہوٹل میں ان کا ریپ کیا تھا۔ سوئس عدالت میں اب یہ الزام ثابت ہوچکا ہے جس کی بنیاد پر انھیں سزا سنائی گئی ہے۔
متاثرہ خاتون کا الزام تھا کہ انھیں ڈر ہے کہ انھیں مار دیا جائے گا۔ طارق رمضان نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے اس خاتون کو اپنے ہوٹل کے کمرے میں بلایا تھا۔ تاہم انھوں نے کسی بھی قسم کے تشدد کے الزام کی تردید کی تھی۔
2020 تک وہ ریپ کے پانچ الزامات کا سامنا کر رہے تھے: چار فرانس میں اور ایک سوئٹزرلینڈ میں۔
جون میں پیرس کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ طارق رمضان پر 2009 سے 2016 کے دوران تین خواتین کے ریپ کے الزامات پر مقدمہ چلنا چاہیے۔ طارق رمضان کی ٹیم نے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
انھوں نے مسلسل اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ وہ ان الزامات کو ایک ’جال‘ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر بننے والے ان مقدمات کا مقصد ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔
ان کا خاندان بھی ان کی حمایت کرتا ہے۔ طارق رمضان کے بیٹے سمیع نے 2019 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے والد کے خلاف الزامات ’دوسری وجوہات کے سبب عائد کیے گئے ہیں، جو ہمارے خیال میں سیاسی ہیں۔‘
مئی 2023 کے دوران جنیوا کی عدالت میں استغاثہ نے اصرار کیا کہ بریجیٹ (خاتون کا تبدیل شدہ نام ) نے مبینہ حملے کی بات کو گھڑا نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو وہ ججوں کو اتنی تفصیل سے بتانے کے قابل نہیں ہوتیں۔
طارق رمضان کے دفاعی وکیل نے ان کے خلاف الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کی بے گناہی پر زور دیا تھا۔ جبکہ 2023 میں ایک ہفتے کی بحث کے بعد تین سوئس ججوں نے انھیں بے قصور قرار دیا تھا۔