بھارت ریاست منی پور میں حالات کشیدہ، غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/اے ایف پی/پی ٹی آئی/رائٹرز) شمال مشرقی ریاست منی پور میں حکومت مخالف مظاہروں کے بعد کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی گئی ہے۔ مظاہرہ کرنے والے طلبہ کا الزام ہے کہ حکام ریاست میں نسلی تشدد پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔

بھارتی حکام نے منگل کے روز شمال مشرقی ریاست منی پور میں پانچ دن کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو پوری طرح سے منقطع کر دیا اور مظاہرین و پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد حکام نے متعدد اضلاع میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔

حکومت کے حکم کے مطابق طلبہ کے احتجاج کی وجہ سے ریاست میں سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بھی بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ریاستی حکومت نے اس حوالے سے اپنی ایک نوٹس میں کہا کہ “امن عامہ کو برقرار رکھنے اور غلط معلومات اور جھوٹی افواہوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔”

منی پور میں کیا ہو رہا ہے؟

ریاست منی پور میں اکثریتی ہندو میتی برادری اور اقلیتی عیسائی کوکی کمیونٹی کے درمیان پرتشدد جھڑپیں کئی مہینوں سے ہوتی رہی ہیں، تاہم گزشتہ کچھ دنوں سے حالات اتنے کشیدہ نہیں تھے۔

تازہ تنازعہ اور کشیدگی یکم ستمبر کے روز اس وقت بڑھ گئی، جب لڑائی دوبارہ شروع ہوئی اور دھماکہ خیز مواد گرانے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا گیا۔

پیر کے روز ریاست کے سینکڑوں طلبہ نے ان حملوں کے خلاف احتجاج کیا، جس میں ان کا دعوی ہے کہ کم از کم 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

پولیس کے ایک بیان کے مطابق مظاہرین نے گورنر کی رہائش گاہ کے سامنے پتھراؤ کیا اور بوتلیں پھینکیں۔ اس موقع پر حکام نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور اسٹن گرینیڈ کا استعمال کیا۔

ایک پولیس افسر کے مطابق ان واقعات میں تقریباً 45 افراد زخمی ہوئے۔

بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے اطلاع دی ہے کہ مظاہرین نے ریاستی گورنر لکشمن پرساد اچاریہ کو ریاست کے اعلیٰ پولیس اہلکار اور سکیورٹی مشیر کو تشدد پر قابو پانے میں ناکام رہنے پر ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے انہیں 24 گھنٹے کی مہلت دی تھی۔

منی پور میں تشدد کب اور کیوں شروع ہوا؟

ریاست منی پور میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جہاں پچاس فیصد سے زیادہ ہندوؤں کی آبادی ہے۔ ریاست میں اقلیتی کوکی برادری کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں ریزرویشن کی سہولت کے ساتھ بعض معاشی فوائد بھی حاصل ہیں اور اسی کوٹے کی وجہ سے گزشتہ برس جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس تشدد میں کم از کم 225 افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ اس افراتفری کی وجہ سے اب تقریباً 60,000 افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

طلباء تنظیموں کا کہنا ہے کہ تنازعات کا حل تلاش نہ کرنے پر وہ حکام سے کافی مایوس ہیں۔

تقریباً 3.7 ملین آبادی والی ریاست منی پور میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔ تاہم حالیہ پرتشدد واقعات پر نہ تو مودی اور نہ ہی ان کی پارٹی کی جانب سے اب تک کوئی تبصرہ کیا گیا ہے۔

منی پور کی حکومت تشدد پر قابو پانے کے لیے اس سے پہلے بھی کئی بار کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ تک رسائی کو بند کر چکی ہے اور کشمیر کے بعد بھارت میں انٹرنیٹ کی یہ طویل ترین بندشوں میں سے ایک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں