حکومت کا تختہ اُلٹنے کا الزام: کانگو کی فوجی عدالت نے امریکی شہریوں سمیت 37 افراد کو سزائے موت سُنادی

کنشاسا (ڈیلی اردو/بی بی سی) ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کی ایک فوجی عدالت نے تین امریکی، ایک برطانوی اور ایک کینیڈین شہری سمیت 37 افراد کو ملک میں حکومت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں سزائے موت سُنا دی ہے۔

ان افراد پر الزام تھا کہ انھوں نے مئی میں صدارتی محل اور صدر فیلکس شیسیکیدی کے ایک اتحادی سیاستدان کے گھر پر حملہ کیا تھا۔

ملک میں ہونے والی بغاوت کے مبینہ مرکزی کردار کانگولیس نژاد امریکی شہری کرسچن ملنگا سمیت پانچ افراد صدارتی محل پر حملے کے دوران مارے گئے تھے۔

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کی ایک فوجی عدالت نے مجموعی طور پر 51 ملزمان کے خلاف بغاوت کے مقدمے کی سماعت کی تھی اور یہ سماعت سرکاری ٹی وی چینل اور ریڈیو پر بھی نشر کی گئی تھی۔

ملنگا کے بیٹے مارسل بھی ان افراد میں شامل ہیں جنھیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ ایک سماعت کے دوران انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے والد نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے حکومت کا تختہ اُلٹنے میں ان کی مدد نہ کی تو وہ انھیں قتل کر دیں گے۔

مارسل کے دوست ٹائلر تھامپسن کو بھی سزائے موت سُنائی گئی ہے۔ ان دونوں کی عمریں 20 کے پیٹے میں ہیں اور یہ دونوں ماضی میں ساتھ امریکی ریاست یوٹاہ میں فُٹ بال کھیلا کرتے تھے۔

ٹائلر کی سوتیلی والدہ نے جون میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے خاندان کو نہیں معلوم کہ ان کا بیٹا ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کیسے پہنچا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’جو ہو رہا تھا اس دیکھ کر ہم صدمے میں تھے۔ ہمیں جو بھی معلومات مل رہی تھی وہ گوگل سے مل رہی تھی۔‘

بنیامین زلمان بھی امریکی شہری ہیں اور انھیں بھی سزائے موت سُنائی گئی ہے۔ وہ ملنگا کے کاروباری ساتھی ہیں۔

جین جیکیوز وونڈو بھی کانگولیس نژاد بیلجیئن شہری ہیں جنھیں فوجی عدالت نے سزائے موت سُنائی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جین ایک محقق ہیں جو خطے کی سیاست اور سکیورٹی پر تحقیق کرتے ہیں اور ان کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے کے ثبوت کمزور ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جن برطانوی اور کینیڈین شہریوں کو سزائے موت سُنائی گئی ہے وہ بھی کانگولیس نژاد ہیں۔

عدالت کو دوران سماعت بتایا گیا کہ برطانوی شہری یوسف ایزنگی نے دیگر افراد کو بھی بغاوت میں حصہ لینے پر راضی کیا تھا۔

فوجی عدالت نے 14 افراد کو رہا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ سزائے موت پانے والے پانچ افراد نے اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلیں دائر کر دی ہیں۔

خیال رہے تقریباً دو دہائیوں میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں کسی بھی شخص کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جنھیں سزائے موت دی جاتی ہے وہ عام طور پر عمر قید کی سزا کاٹتے ہیں۔

تاہم رواں برس مارچ میں حکومت نے سزائے موت پر عائد پابندی ہٹا دی تھی اور کہا تھا کہ ملک کی فوج سے ’غداروں‘ کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش 19 مئی کو کی گئی تھی جب مسلح افراد نے پہلے پارلیمانی سپیکر ویٹل کمیرہی کے گھر پر حملہ کیا اور پھر صدارتی محل کی طرف چلے گئے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ فوج کی وردی میں ملبوس 20 افراد نے صدارتی محل پر حملہ کیا تھا اور وہاں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

فوج کے ایک ترجمان نے بعد میں اعلان کیا تھا کہ ملک کی سکیورٹی فورسز نے ’بغاوت کی کوشش ناکام بنادی ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں