اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) دشمن کے میزائل دفاعی نظام کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ایم آئی آر وی میزائل میں کئی وار ہیڈز ہوتے ہیں جو ایک ساتھ مختلف اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ جبکہ ایم اے آر وی میں صرف ایک وار ہیڈ ہوتا ہے لیکن یہ ہدف تک پہنچنے سے پہلے اپنی سمت بدل سکتا ہے تاکہ دشمن کے دفاعی نظام کو کنفیوژ کر سکے۔
یہ دونوں ہتھیار پاکستان کے اس میزائل نظام کا حصہ ہیں جو حالیہ امریکی پابندیوں کی زد میں آئے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو ’سیاسی‘ اور ’جانبدار‘ قرار دیا ہے۔
امریکی پابندیاں اور پاکستان کا ردِعمل
محمکہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ پابندیاں آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (اے ای سی اے) اور ایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ (ای سی آر اے) کے تحت چین کے تین اداروں، ایک چینی شخصیت اور ایک پاکستانی ادارے پر بیلسٹک میزائل کے پھیلاؤ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عائد کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کا الزام ہے کہ بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فارمشین بلڈنگ انڈسٹری (آر آئی اے ایم بی) بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث ہے اور اس نے شاہین تھری اور ابابیل میزائل سسٹمز اور ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑے سسٹمز کے لیے راکٹ موٹرز کی جانچ کے لیے آلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس (این ڈی سی) کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
بیان میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ یہ ادارہ بڑے سسٹمز کے لیے آلات خریدنے میں بھی ملوث ہے۔ جن دیگر کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ان میں چین کی ہوبئی ہواچانگدا انٹیلیجنٹ ایکوپمنٹ، یونیورسل انٹرپرائز، ژیان لونگدے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ اور پاکستانی کمپنی انوویٹیو ایکوئپمنٹ بھی شامل ہیں۔ جبکہ امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے چینی شخص کا نام لوو ڈونگمی ہے۔
امریکی پابندیوں کے حوالے سے وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی شک کی بنیاد پر مختلف اداروں کی اسی طرح کی فہرست بنائی گئیں اور وسیع بنیادوں پر ٹیکنالوجیز و پرزہ جات ان پابندیوں کے زمرے میں آئے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک جو عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ اپنی پسندیدہ ریاستوں کو جدید فوجی ٹیکنالوجیز کی فراہمی کے معاملے میں لائسنس کی شرائط نظر انداز کر چکے ہیں اور اس طرح کے دوہرے معیار اور امتیازی رویہ عالمی عدم پھیلاؤ کے خلاف کام کرنے والی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں، فوجی عدم توازن میں اضافہ کرتے ہیں اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل امریکہ نے رواں برس اپریل میں چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی جبکہ اکتوبر 2023 میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مذید کمپنیوں پر اسی طرح کی پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس کے علاوہ دسمبر 2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جو حالیہ امریکی پابندیوں کا نشانہ بن رہا ہے، وہ کیا ہے؟ اس میں کون کون سے میزائل شامل ہیں اور امریکہ کو ان سے کیا خدشات ہیں؟ اس تحریر میں ہم نے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ امریکی پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں۔
امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا میزائل پروگرام کیا ہے؟
پاکستان کا وہ میزائل پروگرام جس کا تذکرہ امریکی خارجہ کے اعلامیے میں کیا گیا اس میں میڈیم رینج یا درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اور ابابیل شامل ہیں جو ملٹیپل ری انٹر وہیکل یا ایم آر وی میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان نے 2017 میں ابابیل میزائل کا پہلا تجربہ کرنے کے بعد گذشتہ برس 18 اکتوبر 2023 کو بھی زمین سے زمین پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد رواں برس 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر پہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
آسٹریلیا کے شہر کینبرا کی نیشنل یونیورسٹی میں سٹریٹیجک اور ڈیفینس سٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر منصور احمد کے مطابق یہ جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر منصور احمد کے مطابق دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یا اس سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایم آر وی میزائل سسٹم ہے جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس میزائل میں موجود ہر وار ہیڈ ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر منصور کے مطابق اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیو اہداف، جو بیلسٹک میزائل ڈیفنس (بی ایم ڈی) شیلڈ سے محفوظ بنائے گئے ہوں، کے خلاف پہلی یا دوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی بتاتے ہیں کہ ایم آر وی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہدف کے قریب پہنچنے پر ان کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈ یا بیلسٹک میزائل سسٹم موجود ہو تو وہ انھیں کنفیوژ کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالر گیند کو سوئنگ کرتا ہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کو توڑنے کے لیے اپنی رفتار کے ساتھ سوئنگ اور سیم پر بھی انحصار کرتا ہے۔
سید محمد علی بتاتے ہیں کہ ایم آئی آر ویز میزائل میں کئی وار ہیڈز ہوتے ہیں جو آزادانہ طور پر پروگرامڈ ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر ہی اپنے اپنے اہداف کی جانب جاتے ہیں اور ہر ایک کا فلائٹ پاتھ یعنی فضائی راستہ مختلف ہوتا ہے۔
ڈاکٹر منصور کے مطابق انڈیا تقریباً ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے بلیسٹک میزائل سسٹم پر کام کر رہا ہے اور وہ ناصرف اس کے تجربات کرتے رہتے ہیں بلکہ عوامی سطح پر اس کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔
انڈیا نے حال ہی میں پہلے ایم آر وی میزائل اگنی فائیو کا ایک سے زائد وار ہیڈز کے ساتھ تجربہ کیا ہے۔ یہ انٹرکونٹینینٹل بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج کم از کم 5000-8000 کلومیٹر ہے اس کے مقابلے میں ابابیل کی رینج محض 2200 کلومیٹر ہے اور یہ پوری دنیا میں سب سے کم رینج تک مار کرنے والا ایم آر وی ہے۔
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ انڈیا کا ’اگنی پی‘ بھی ایم آر وی ہے جس کی رینج 2000 کلومیٹر تک ہے۔
پاکستان کا شاہین تھری میزائل کیا ہے؟
ڈاکٹر منصور کے مطابق ابابیل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن امریکہ کو 2021 سے جس میزائل پر تشویش ہو رہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج 2740 کلومیٹر ہے۔
دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ شاہین تھری کے تجربے کے وقت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد احمد قدوائی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’یہ میزائل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کا مقصد انڈیا میں اہم سٹریٹجک اہداف (خاص طور پر انڈمان اور نیکوبار جزیروں اور مشرق میں وہ مقامات جہاں ان کی نیوکلئیر سب میرین بیسز تعمیر کی جا رہی ہیں) کو نشانہ بنانا ہے تاکہ انڈیا کو چپھنے کے لیے کوئی جگہ نہ مل سکے اور یہ غلط فہمی نہ رہے کہ انڈیا میں ایسی جگہیں ہیں جہاں وہ کاؤنٹر یا پہلی سٹرائیک کے لیے اپنے سسٹمز چھپا سکتے ہیں اور پاکستان ان مقامات کو نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘
ڈاکٹر منصور کے مطابق انڈیا کے وزیر دفاع رجنات سنگھ سمیت انڈین عہدیدار کئی مواقع پر ایسے بیانات دیتے آئے ہیں جن میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ ’انڈیا نے ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں جو اسے پاکستان کے خلاف قبل از وقت حملہ کرنے کے قابل بناتی ہیں۔‘
وہ سپرسونک براہموس میزائل کی مثال دیتے ہیں جو روایتی کے ساتھ نیوکلئیر ہتھیار بھی ہے اور اس کے علاوہ انڈیا بہت سے ایسے سسٹمز بنا رہا ہے جو پہلی سٹرائیک کے لیے زمین، فضا اور سمندر سے بھی لانچ ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے سنہ 2022 میں ایک براہموس میزائل پاکستان میں آ گرا تھا جس کے بارے میں انڈین وزارت دفاع کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کی حدود میں گرنے والا براہموس میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھا۔
ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ ’انڈیا براہموس کو پاکستانی سٹریٹجک فورسز اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے خلاف روایتی کاؤنٹر فورس (پہلی) سٹرائیک کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور پھر انڈیا یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہم نے تو محض روایتی حملہ کیا ہے لیکن اس طرح کی روایتی سٹرائیک کو پاکستان کی طرف سے پہلا جوہری حملہ تصور کیا جائے گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ یہ وہ ساری صورتحال ہیں جن میں کسی بھی حملے کو روکنے کے لیے پاکستان کو تیار رہنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر پاکستان دشمن کو دکھانے کے لیے اپنی صلاحتیوں کا اظہار کرتا رہے۔ اور اسی مقصد سے پاکستان نے شاہین تھری اور ابابیل جیسے نیوکلئیر وار ہیڈز بنائے ہیں اور ان کی نمائش کی ہے۔
امریکہ کو کیا تشویش ہے؟
اب بات کرتے ہیں کہ امریکہ کو ان میزائلوں پر کیا تشویش ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’آر آئی اے ایم بی نے شاہین تھری اور ابابیل میزائل سسٹمز اور ’ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑے سسٹمز‘ کے لیے ڈائیامیٹر راکٹ موٹرز کے ٹیسٹ اور آلات کی خریداری کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کیا ہے۔‘
’ممکنہ طور پر اس سے بھی بڑے سسٹمز ‘کے متعلق ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اسی میزائل کی اگلی جنریشن پر کام ہو رہا ہے۔
ابابیل کا پہلا ٹیسٹ جنوری 2017 میں ہوا تھا اور اس کے بعد ابابیل کا دوسرا تجربہ چھ سال بعد گذشتہ برس اکتوبر 2023 میں ہوا۔ اور ان چھ سالوں کے دوران این ڈی سی میں اس ٹیکنالوجی پر مسلسل کام ہوتا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ شاہین تھری تو پہلے سے آپریشنل تھا لیکن ابابیل کے دوسرے تجربے کے بعد جب مارچ میں اسے پریڈ میں دکھایا گیا تو اس کے بعد شاہین تھری اور ابابیل زیادہ نظروں میں آئے کیونکہ اس نمائش کا مطلب تھا کہ پاکستان اس مرحلے تک پہنچ چکا ہے جہاں اس پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ مکمل ہو چکی ہے اور ابابیل اب آپریشنل ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ یہ امریکی تشویش کی اصل وجہ ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پر کام کر رہا ہے۔
ان کے مطابق امریکی تشویش کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمز ہیں اور موبائل لانچر والا سسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائز حملے کی صورت میں یہ سسٹم ناصرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پر کیموفلاج کیے جا سکتے ہیں بلکہ انھیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایا جا سکتا ہے جہاں دشمن کو ان کا پتا نہ چلا سکے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ کوئی بھی تھری سٹیج میزائل سسٹم، زیادہ رینج والے سسٹم کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے ابابیل کے پہلے اور دوسرے ٹیسٹ کے بیچ چھ سال کا وقفہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب مقامی طور پر اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چین سے ہی ساری ٹیکنالوجی لے رہے ہوتے تو چھ سال کا انتظار کیوں کرتے؟
تاہم ان کا ماننا ہے کہ یقیناً اس سسٹم میں کوئی ایسی نئی ڈویلپمنٹ ہوئی ہے جس نے امریکی تشویش میں اضافہ کیا ہے کہ شاید پاکستان مزید صلاحیتیں حاصل کر رہا ہے اور مستقبل میں ان نیوکلئیر صلاحتیوں والے میزائلوں کے بہتر ورژن زیادہ بڑے وار ہیڈز لے جا سکتے ہیں اور ابابیل شاید تین سے زیادہ وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت حاصل کر لے۔
یاد رہے اپریل میں ان سسٹمز کے موبائل لانچرز پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ امریکہ کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں کہا گیا تھا کہ بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کو بیلسٹِک میزائل پروگرام کے لیے خصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں۔
سپیس پروگرام کا خدشہ؟
امریکی پابندیوں میں پاورفل راکٹ موٹرز کا بھی تذکرہ ہے۔ ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ کو ابابیل کی طویل رینج کے علاوہ پاکستان کے سپیس پروگرام پر بھی تشویش ہے۔
یاد رہے اپریل کی فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کے ساتھ مل کر راکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے۔ اور مزید یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ یہی کمپنی پاکستان کو بڑی راکٹ موٹرز آزمانے کے لیے پرزے فراہم کرتی رہی ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ ’امریکہ کو فکر ہے کہ پاکستان اپنا مقامی سپیس لانچ وہیکل نہ بنا لے‘ اور پاکستان پہلے سے 2047 سپیس پروگرام کا وژن رکھتا ہے۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ نیوکلئیر ڈیٹیرنس کے لیے سپیس پروگرام میں صلاحیتیں حاصل کرنا بہت اہم ہیں جو آپ کو ہدف کو درست نشانہ بنانے اور دفاعی نگرانی وغیرہ کے قابل بناتا ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ پاکستان فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے اپنا سپیس وہیکل لانچ کر سکتا ہے جس سے اس کے پاس انٹرکونٹینٹل بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت آ جائے گی۔
یہ پابندیاں پاکستان کے میزائل پروگرام کو کیسے متاثر کر سکتی ہیں؟
امریکی پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کا آغاز 70 کی دہائی میں ہوا۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں حالیہ پابندیاں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ 70 کی دہائی سے جاری ہے جب انڈیا کے میزائل پروگرام (جس کے لیے وہ روسی اور کئی دوسرے ذرائع سے مدد حاصل کر رہا تھا) کے جواب میں پاکستان نے اپنا میزائل پروگرام شروع کیا اور ہمیشہ سے چین کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رہے۔
وہ کہتے ہیں چین اور پاکستان کی کمپنیوں اور افراد پر لگائی گئی ان پابندیوں کا دونوں ملکوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستانی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کامپلیکس (این ڈی سی) پر پابندیوں کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ ادارہ میزائل ٹیکنالوجیز کے لیے مغرب پر انحصار نہیں کرتا لہذا اس پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وہ شمالی کوریا کی مثال دیتے ہیں جس پر کتنی پابندیاں لگیں مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس حوالے سے دفاعی و میزائل تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں کہ ’پاکستان کا میزائل پروگرام مکمل طور پر مقامی ہے، اس کا انحصار مقامی وسائل اور مہارت پر ہے اور یہ امریکی پابندیوں سے متاثر نہیں ہو گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کے اقدامات افسوسناک ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ علاقائی تزویراتی حقائق سے جدا ہیں جیسے کہ ملک کی حفاظت و سکیورٹی اور انڈین میزائلوں کی بڑھتی ہوئی بین البراعظمی حدود جو علاقائی اور عالمی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔
امریکہ کے نزدیک انڈیا کواڈ کا سب سے اہم رکن ہے
امریکی محمکہ خارجہ کے بیان میں ایم ٹی سی آر (میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم) کا بھی ذکر ہے یہ میزائل ٹیکنالوجی کی برآمد پر کنٹرول رکھنے والے ممالک کا گروپ ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں نے ایم ٹی سی آر پر دستخط نہیں کیے مگر اس کے بغیر بھی چین اور پاکستان دونوں اس کا پاس کرتے ہیں اور کوئی ایسا سسٹم برآمد نہیں کیا گیا جس کی رینج 300 کلومیٹر سے زیادہ ہو مگر اس اقدام کی تعریف کرنے کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین آپس میں تعاون کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر مسئلہ دونوں ملکوں کے تعاون سے ہے تو دوسری طرف انڈیا کا سارا میزائل پروگرام روس کے تعاون اور مدد سے بنا ہے۔
اس کی مثال انڈیا کا براہموس میزائل ہے، جب ابتدا میں روس سے یہ ٹیکنالوجی لی گئی تو اس کی رینج 290 کلومیٹر تھی مگر اب انڈیا اسے 800 کلومیٹر تک لے جا چکا ہے اور اس کے ہائپر سانک ورژن پر بھی کام ہو رہا ہے مگر یہاں ایم ٹی سی آر کی بات نہیں کی جاتی۔
یاد رہے ایم ٹی سی آر میں 300 کلومیٹر سے زیادہ رینج والے میزائل کی برآمد پر پابندی ہے اور 500 کلو سے زیادہ کے وار ہیڈز کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ڈاکٹر منصور انڈیا کے اگنی فائیو کی مثال بھی دیتے ہیں جس کی رینج 5000-8000 کلومیٹر ہے اور یہ تین سے پانچ اور شاید اس سے بھی زیادہ وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور انڈیا ایٹمی آبدوزوں پر لگانے کے لیے بھی اس کے ورژن تیار کر رہا ہے۔
ڈاکٹر منصور بتاتے ہیں کہ پاکستان کے پاس تو کوئی ایٹمی آبدوز نہیں ہے ’پاکستان کے تحمل کی تعریف تو نہیں کی جاتی‘ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی کوششیں جنوبی ایشیا میں سٹریٹیجک استحکام برقرار رکھنے کے لیے ہیں۔
انڈیا کے جواب میں تیار کی گئیں ٹیکنالوجیز سے مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے تاہم ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک انڈیا کواڈ کا سب سے اہم رکن ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کی سافٹ پاور، معاشی طاقت پاکستان سے بہت زیادہ اور مغربی ممالک کے ہر تھنک ٹینک میں انڈینز کا غلبہ ہے جو عوام اور حکومتوں کی رائے عامہ بنانے پر بہت اثر رکھتے ہیں۔
یاد رہے کواڈ چار ممالک کا گروپ ہے جس میں انڈیا، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ کی مختلف بین الاقوامی مقامات پر جیو سٹریٹیجک دلچسپیاں ہیں جیسے یوکرین روس، مشرقِ وسطیٰ اور تائیوان چین وغیرہ کی صورتحال ہے اور اسی باعث اس نے مختلف جگہوں پر ان ملکوں سے مختلف وعدے کر رکھے ہیں اور جنوبی ایشیا کے خطے میں چین کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے کواڈ بنایا ہے۔
اور چین کے ساتھ کشیدگی بھی پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے سید محمد علی کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کا محور بنیادی طور پر پاکستان کے بجائے چینی کمپنیاں ہیں، تاکہ بیجنگ کو مجبور کرکے اس پر معاشی دباؤ ڈالا جائے۔