کوئٹہ (ڈیلی اردواردو/بی بی سی) بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مجوزہ آئینی ترامیم کی مکمل حمایت کے لیے دو ہزار لاپتا افراد کی بازیابی کی شرط پیش کی ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جماعت نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ اب تک حکومت نے جن آئینی ترامیم کے حوالے سے پارٹی سے مشاورت کی ہے پارٹی ان کی حمایت کرے گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے مجوزہ آئینی ترامیم کی حمایت کی ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان سے قومی دھارے کی جماعتوں کے علاوہ جن دیگر جماعتوں کی پارلیمنٹ نمائندگی ہے ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔
قوم پرست جماعتوں میں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینیٹ میں دو جبکہ نیشنل پارٹی کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔
حکومت نے بلوچستان سے نمائندگی رکھنے والی دیگرجماعتوں سے بھی حمایت کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اگر ترامیم عوام کے فائدے میں ہیں تو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے: بی این پی
بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم قام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آئینی ترامیم کی حمایت کے لیے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور دیگر حکومتی عہدیداروں کا سردار اختر مینگل کے علاوہ ان سے رابطہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومتی عہدیداروں سے یہ سوال کیا کہ اگر یہ ترامیم عوام کے فائدے کے لیے ہیں تو ان کو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے؟
’ہم نے انھیں بتایا کہ آئینی ترامیم کے مسودے کو تو تین ماہ پہلے منظر عام پر لانا چائیے تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب تک آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں ملے گا اس وقت تک پارٹی ان کی حمایت نہیں کرسکے گی۔ انھوں نے بتایا کہ پارٹی کے سربراہ نے آئینی ترامیم کی حمایت کے لیے دو ہزار لاپتہ افراد کی بازیابی کی شرط بھی رکھ دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نے اس معاملے پر بات چیت کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم اگر حکومت اس بات کے لیے تیار ہوتی ہے تو ان دو ہزار افراد کو آئینی ترامیم کی منظوری سے پہلے بازیاب کرانا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا لیکن بلوچستان کو صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت بلوچستان کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو وہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کرے۔
’آئینی کورٹ کے قیام سے متعلق ترمیم کی نیشنل پارٹی حمایت کریگی‘
نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر جان محمد بلیدی نے بتایا کہ بعض آئینی ترامیم پر حکومت کی نیشنل پارٹی سے مشاورت ہوئی ہے اور جن آئینی ترامیم پر مشاورت ہوئی ہے نیشنل پارٹی ان کی حمایت کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ جن آئینی ترامیم پر مشاورت ہوئی ہے ان میں آئینی کورٹ کے قیام سے متعلق ترمیم شامل ہے جس کی نیشنل پارٹی حمایت کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم میں ججوں کی تقرری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں پارلیمنٹ کے اراکین بھی شامل کیے جائیں گے اور اس میں دو اراکین حزب اختلاف اور دو اراکین حکومت سے ہوں گے۔
انھوں نے بتایا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے تحت فلور کراس کرنے والے رکن کو نااہل قرار دیا جائے گا۔
جان محمد بلیدی نے بتایا کہ پہلے 90 روز تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اتفاق رائے نہ ہونے پر معاملہ لٹک جاتا تھا لیکن اب 90 روز تک اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ کو ہٹانے کا اختیار پہلے وزیر اعظم کے پاس تھا لیکن مجوزہ آئینی ترمیم میں فوج کے سربراہ کو ہٹانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس جائے گا۔