واشنگٹن + اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں اس سال اب تک 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں جب کہ 2024 کے ختم ہونے میں ابھی ساڑھے تین مہینے باقی ہیں۔ ان ہلاکتوں نے موجودہ سال کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین بنا دیا ہے۔
صحافیوں کے قتل کے واقعات میں انصاف کی کمی یا ان میں ملوث افراد کے قانون کی گرفت میں نہ آنے کی بنا پر صحافتی اور انسانی حقوق کے حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جاتی ہے اور اس ملک کو میڈیا کے کارکنوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
صحافیوں پر حملوں کا تازہ ترین ہدف بلوچستان میں ایک مقامی پریس کلب کے سیکرٹری نثار لہری بنے ہیں۔ پولیس کو درج کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق نامعلوم حملہ آوروں نے 4 ستمبر کو مستونگ میں 50 سالہ صحافی کو انکے گھر کے قریب اس لیے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا کیونکہ انہوں نے جرائم پیشہ عناصر کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی۔
اس سے قبل 27 اگست کو ایک اور میڈیا رپورٹر محمد بچل گھنیو کا قتل ہوا۔ وہ ایک مقامی ٹیلی وژن چینل ’آواز‘ سے منسلک تھے۔ انہیں صوبہ سندھ میں ان کے آبائی ضلع گھوٹکی میں مسلح افراد نے نشانہ بنایا تھا۔
گھنیو کی فیملی اور پولیس کا کہنا ہے وہ اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے ہلاک کیے گئے ۔ پولیس نے قتل کے سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کی گرفتاری اور حملے میں مبینہ طور پر استعمال ہونے والا ہتھیار برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پریس کی آزادی کے لیے اسلام آباد میں قائم ایک غیر منافع بخش تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال اب تک پاکستان میں 11 صحافی قتل کیے جا چکے ہیں جن میں یوٹیوب کے ایک شو کے میزبان بھی شامل ہیں۔
فریڈیم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر صحافی کو رپورٹنگ کے دوران اپنی سلامتی سے متعلق خدشات ہوتے ہیں، اور اس سال اب تک ایک یوٹیوبر سمیت 11 صحافیوں کا قتل آزاد میڈیا پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
پاکستانی حکام صحافیوں پر حملوں میں اضافے کا سبب ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو قرار دیتے ہیں۔
تاہم، ناقدین ان دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سال زیادہ تر صحافی سندھ اور پنجاب میں قتل ہوئے جہاں دہشت گردی سے متاثرہ صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مقابلے میں حالات نسبتاً پرامن ہیں۔
پاکستان کی فوج اور اس کی انٹیلیجینس ایجنسیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ قومی سیاست میں ان کے ملوث ہونے پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف منظم انداز میں تشدد کرتے ہیں۔ اسی طرح سندھ اور پنجاب کے اکثر بااثر جاگیردار اور سیاست دان اپنے حلقوں میں ان کارکنوں پر تشدد کرواتے ہیں جو ان کی کارکردگی اور رویوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
خٹک کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام اور قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا تسلسل، صحافیوں کے خلاف موجودہ تشدد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن آزاد صحافت کرنے والوں کو نشانہ بنانے والوں کی فہرست صرف ان دو طبقات تک ہی محدود نہیں ہے۔ یہ فہرست طویل ہے جس میں دہشت گردی بھی شامل ہے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے ہفتے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صحافیوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے چاروں صوبوں کے حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے صحافیوں پر قاتلانہ حملوں اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی سے متعلق ایک سوال کے جوب میں ان کا کہنا تھا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ سندھ میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے اور مقدمات سے بچنے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے صحافیوں کے قتل کے مقدمات کی تحقیقات اور میڈیا کارکنوں کے خلاف مزید تشدد کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ رابطہ کرنے کا وعدہ کیا۔
تارڑ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک یا دو معاملات میں مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔ میرے خیال میں یہ بہت اہم مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس( CPJ) امریکہ میں قائم میڈیا کے حقوق کی ایک عالمی تنظیم ہے۔ اس گروپ نے اپنے ایک بیان میں لہری اور گھنیو کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔
CPJ کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈی نیٹر بیہ لہی یی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستانی حکام کو قتل میں مرتکب افراد کو فوری انصاف کے کٹہرے میں لانا اور اس سال پاکستان بھر میں جاری صحافیوں کے خلاف تشدد کے خوفناک سلسلے کو روکنے کے لیے فوری سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘۔
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ’ پاکستان میں پریس اس وقت تک صحافت نہیں کر سکتا جب تک حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیاں ملک میں صحافیوں کے خلاف استثنیٰ ختم نہیں کرتیں‘۔
سی پی جے کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’اس سال پاکستان میں درجنوں صحافیوں پر ملک بھر میں ان کی رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے حملہ کیا گیا یا انہیں روپوش ہونے پر مجبور کیا گیا‘۔
صحافت کی آزادی پر نظر رکھنے والے ایک اور عالمی گروپ ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (RSF) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے وفاقی اور صوبائی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں صحافت کی آزادی میں تشویشناک حد تک کمی کے معاملے سے نمٹںے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
گروپ کے جنوبی ایشیا ڈیسک کی سربراہ سیلیا مرسیئر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی صحافت کی بہت سی خلاف ورزیوں اور سینسر کے اقدامات کی، سیاسی جماعتوں کے منشور اور وزیراعظم شہباز شریف کے صحافیوں کی حمایت کے پیغام سے مماثلت بہت کم ہے۔
مرسیئر نے چند ماہ قبل جون میں کہا تھا کہ ’پاکستان میڈیا کے کارکنوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے اور صحافیوں کے قاتلوں کی قانون کی گرفت میں نہ آنے کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے۔
انٹرینٹ کی بندش اور سست روی جاری
پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی ستمبر کے دوران بھی جاری ہے اور ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جس پر وہ احتجاج کر رہے ہیں۔
شہباز شریف کی حکومت کو، جسے فوج کی حمایت حاصل ہے، حکومت کے خلاف اختلاف رائے یا سیاسی بدامنی روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی کا عمومی طور پر ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے۔
پاکستانی حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں انٹرینٹ کی خرابی کی وجہ سب میرین انٹرنیٹ کیبل میں خرابی کا پیدا ہونا ہے۔
28 اگست کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے اپنے ایک اعلان کہا تھا کہ کیبل کی مرمت کا کام اکتوبر کے اوائل تک مکمل ہو جائے گا، تاہم اس دوران انٹرنیٹ کی سست روی برقرار رہ سکتی ہے۔