نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارت میں منی پور گزشتہ ایک سال سے نسلی فسادات کا شکار ہے۔ امن اب بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا اور انسانی حقوق کے گروپ متحارب برادریوں کو اکٹھا نہیں کر پانے کے لیے حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں اکثریتی ‘میئتی’ برادری اور اقلیتی ‘کوکی’ کے درمیان ہلاکت خیز نسلی تشدد پھوٹنے کے ایک سال سے زائد عرصے کے بعد بھی کشیدگی برقرار ہے۔
ریاست میں بہت سے لوگوں کے مطابق امن و امان غائب ہے اسی طرح حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آتا ہے۔
کئی ماہ تک نسبتاﹰ پرسکون رہنے کے بعد یکم ستمبر کو منی پور میں تشدد کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ حکام کے مطابق ڈرون اور راکٹ حملوں میں متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس طرح کے فضائی ہتھیاروں کا استعمال اس تشدد زدہ ریاست کے لیے پہلا واقعہ ہے اور حکومت نے اسے تشدد میں ایک اور “نمایاں اضافہ” قرار دیا ہے۔
منی پور میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ کوکی گروپوں نے میئتی کے زیر اثر علاقوں پر ڈرون حملے کیے۔ تاہم کوکی تنظیموں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون استعمال کرنے والے میئتی ہی تھے۔
پچھلے سال پہلی مرتبہ کوکی اور میئتی گروپوں نے ایک دوسرے کے خلاف بڑے پیمانے پر پرتشدد حملے کیے۔ میئتی، جو کہ زیادہ تر ہندو ہیں، ریاست کے دارالحکومت امپھال میں اور اس کے آس پاس رہتے ہیں جب کہ کوکی، جو بنیادی طور پر مسیحی ہیں آس پاس کی پہاڑیوں میں آباد ہیں۔
یہ پرتشدد واقعات میئتی کمیونٹی کو سرکاری طور پر قبائلی درجہ دینے کے عدالت کے ایک فیصلے کے بعد پیش آئے۔ کوکی قبائلی اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تنازعے میں اب تک 225 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 60,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔
حکومتی بے عملی؟
انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشدد کو روکنے کے سلسلے میں حکام کے رویے پر سوال اٹھایا ہے۔ بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سنگین صورت حال کے باوجود ابھی تک نہ تو ریاست کا دورہ کیا ہے اور نہ کوئی جامع بیان دیا ہے۔
منی پور میں انسانی حقوق کے ایک کارکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، “حکومت منی پور میں لوگوں کی جانوں اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری سے مکمل طور پر دستبردار ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے منی پور کے باشندوں میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔”
انسانی حقوق کی ایک ممتاز وکیل بینا لکشمی نیپرام اسے منی پور کی تاریخ کا “تاریک ترین دور” قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “بھارتی سکیورٹی فورسز کے تقریباً ساٹھ سے ستر ہزار دستے صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ریاست میں بھیجے گئے کہ تنازعہ کو سرد کیا جائے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔”
وہ مزید کہتی ہیں، منی پور کے لوگ بہت حیران ہیں کہ اپنے جدید ترین ہتھیاروں، انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کے باوجود بھارت کی حکومت ملک کے ایک چھوٹے سے حصے میں حالات پر کیسے قابو نہیں پا رہی ہے؟ یہ 16 ماہ سے جاری ہے۔ ہر منی پوری یہی سوال پوچھ رہا ہے۔”
نسلی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟
چورا چند پور سے تعلق رکھنے والے کوکی طالب علم رہنما ٹیلنگ لیٹمنلن ہوکیپ کا کہنا تھا کہ ان کی برادری کے ساتھ کئی دہائیوں سے تفریقی سلوک کیا جا رہا ہے اور نسلی کشیدگی گہری ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمارا معاشی اور سیاسی طور پر استحصال کیا گیا ہے۔ پہاڑیوں میں رہنے والوں اور وادی میں رہنے والوں کے درمیان بہت زیادہ عدم اعتماد ہے۔ پہاڑی علاقوں میں شاید ہی کوئی ترقیاتی کام ہوا ہے۔ تمام اچھے انفراسٹرکچر وادی میں ہیں جب کہ ہمیں ترقی اور مواقع سے محروم رکھا گیا۔”
میئتی نسلی گروپ سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ سرجیت (تبدیل شدہ نام) نے نسلی تقسیم کو “ایک ایسا ٹائم بم بتایا جو پھٹ گیا۔” انہوں نے کہا کہ میئتیوں کو پہاڑیوں میں زمین خریدنے سے محروم رکھا گیا ہے، اور میانمار سے کوکیوں کی گزشتہ برسوں سے غیر قانونی نقل مکانی نے تنازعات میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،” ہم شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ چاہتے ہیں، تاکہ ہم پہاڑیوں میں زمین خرید سکیں، جو فی الحال ہم نہیں کر سکتے۔”
بھارت میں شیڈولڈ ٹرائب کو آئینی طور پر تحفظات اور مراعات حاصل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا، “میانمار سے غیر قانونی طور پر آنے والے کوکیوں پر پوست کی کاشت اور منشیات کی اسمگلنگ کا الزام ہے۔ پھر میانمار سے غیر قانونی نقل مکانی کا مسئلہ بھی ہے۔”
سابقہ حکومتوں کی ناکامی
سن انیس سو اننچاس میں بھارت کا حصہ بننے والے منی پور کے لیے تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کئی دہائیوں سے ریاست مختلف نسلی برادریوں کے درمیان تشدد کے چکروں اور ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار علیحدگی پسند شورش کی زد میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ریاست میں تنازعہ کی بنیادی وجہ کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور نئی دہلی میں اقتدار پر حکمرانی کرنے والوں نے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔
نیپرام نے کہا کہ گزشتہ 70 سالوں سے منی پور پر حکومت کرنے والوں کی “سیاسی پختگی” کا فقدان یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں کی اجتماعی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا،”منی پور کے بھارت میں شامل ہونے کے بعد، بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے اچھی پالیسیاں ہونی چاہیے تھیں۔ لیکن اس کے بجائے اس علاقے میں عسکریت پسندی پروان چڑھی۔ منی پور میں سیاسی بات چیت کے بجائے جو کچھ ہو رہا ہے وہ مکمل نسل پرستی ہے۔ منی پور کی تاریخ کو سمجھنے کی بنیادی کوشش بھی آج تک نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں پالیسی سازوں کی طرف سے کئی دہائیوں سے غلط پالیسیاں بن رہی ہیں۔”
ایک منی پوری کارکن جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے کہا، “اسے ناکام ریاست کہنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے۔ یہاں کوئی تعلیم، کوئی کاروبار، کوئی بنیادی ہسپتال، انسانی زندگی کا کوئی احتساب نہیں ہے، اور انسانی جان و مال کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔”
نیپرام نے تاہم اس بات پر زور دیا کہ منی پور کا آئیڈیا ایک سال کے تنازعے کی وجہ سے ختم نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا،” اگر آپ نے پچھلے چند دنوں کے واقعات کو دیکھا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ خواتین اور نوجوان منی پور کے آئیڈیا کے دفاع کے لیے باہر آ رہے ہیں، جو ہزاروں سالوں سے ہمیشہ سے ایک کثیر النسل، کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی ریاست رہی ہے۔” انہوں نے کہا کہ منی پور “ایک تہذیب کے طور پر اس تشدد سے بھی نکل آئے گا۔”
‘امن کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں’
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ منی پور میں امن کی سنجیدہ کوششوں کا فقدان ہے۔ منی پور کے انسانی حقوق کے ایک کارکن نے کہا، “ہم نے امن کی کوششوں کی بات کرتے وقت ٹھوس طور پر کچھ ہوتا نہیں دیکھا، سوائے مسلح گروپوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے رسمی مطالبات کے، جو کہ ایک بہت ہی معمول کی بات ہے۔”
نیپرام نے کہا کہ یہ “حیران کن” ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران امن مذاکرات نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا،”بھارت کی حکومت کو برادریوں کو ساتھ لانا چاہیے تھا اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ اعتماد سازی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں ڈرونز کی ضرورت نہیں، ہمیں مکالمے کی ضرورت ہے۔ ہمیں راکٹ لانچروں کی ضرورت نہیں، ہمیں مفاہمت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ثالثی کی ضرورت ہے، فساد کی نہیں۔”