پناہ گزینوں کی آمد روکنا: جرمنی نے بارڈر کنٹرول پر عملدرآمد شروع کردیا

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی بڑھتی آمد کے تناظر میں جرمنی نے اپنی سرحدوں پر پاسپورٹ کنٹرول شروع کر دیا ہے تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو روکا جا سکے۔ یورپی یونین میں ایسے غیرمعمولی اقدامات ’آخری حربہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔

جرمن پولیس پیر 16 ستمبر سے اپنی تمام زمینی سرحدوں کی نگرانی کرے گی۔ اب تک صرف مشرقی اور جنوبی سرحدوں سے ملک میں داخل ہونے والے مسافروں کی جانچ کی جاتی تھی، مگر اب کم از کم آئندہ چھ ماہ تک شمالی اور مغربی سرحدوں کی بھی نگرانی کی جائے گی۔ اس میں ڈنمارک، نیدرلینڈز، بیلجیئم، لکسمبرگ اور فرانس کے ساتھ سرحدی گزرگاہیں شامل ہیں۔

جرمنی شینگن زون کے وسط میں واقع ہے جس میں 29 یورپی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک کی سرحدوں پر پاسپورٹ کنٹرول نہیں کیا جاتا، لیکن بیرونی سرحدوں اور ہوائی اڈوں پر پاسپورٹ کنٹرول لاگو ہوتا ہے۔

نئے سرحدی کنٹرول لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت میں رکاوٹوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے جرمنی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے نئے جامع سرحدی کنٹرول کے ساتھ پورے شینگن نظام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

شینگن زون میں سرحدوں پر کنٹرول

شینگن ایریا میں داخلی سرحدی کنٹرول عام طور پر صرف مخصوص شرائط کے تحت کیے جاتے ہیں۔ تاہم، رکن ممالک خود ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا ان شرائط کو پورا کیا گیا ہے، اور پھر انہیں صرف برسلز میں یورپی کمیشن کو مطلع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یورپی یونین اس طرح کے سرحدی کنٹرول کے لیے تنبیہ جاری کر سکتا ہے لیکن ابھی تک ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔ یورپی یونین کمیشن کی ترجمان انیتا ہپر نے حال ہی میں کہا کہ سرحدی کنٹرول کو صرف ”آخری حربے‘‘ کے طور پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ ماضی قریب میں ترمیم شدہ شینگن بارڈرز کوڈ کے مطابق سرحدی کنٹرول عارضی ہونا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ تین سال تک ہی رہنا چاہیے۔ جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے جرمنی کے اس فیصلے کو درست قرار دینے کی وجہ پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ کے سبب نظام پر بڑھتے بوجھ اور بڑی تعداد میں غیر قانونی مہاجرت کو قرار دیا ہے۔

شینگن میں بارڈر کنٹرول کی بڑھتی حمایت

حالیہ برسوں میں اپنی سرحدوں پر سختی کو بڑھانے میں جرمنی تنہا نہیں ہے۔ شینگن کے آٹھ دیگر ارکان فی الحال اپنی داخلی سرحدیں کنٹرول کر رہے ہیں۔ شینگن زون میں سن 2006 سے اب تک بارڈر کنٹرول کے کل 441 نوٹیفکیشن جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس میں سن 2015 اور 2016 میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے فرانس سرفہرست ہے۔

اس کے علاوہ جرمنی آسٹریا سے منسلک اپنی جنوبی سرحد پر سن 2015 سے سیاسی پناہ گزینوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کنٹرول جاری رکھے ہوئے ہے۔ آسٹریا بھی سلوواکیہ، چیک جمہوریہ، ہنگری اور سلووینیا سے جڑی سرحدوں پر کنٹرول کا یہی جواز پیش کرتا ہے۔

چار سال قبل کووڈ انیس کی وبا کے دوران محدود وقت کے لیے سرحدیں بند کرنے کے علاوہ بارڈر پر پاسپورٹ کنٹرول میں اضافہ دیکھا گیا تاکہ مہلک وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں یورو زون میں تجارت کے لیے انتہائی اہم ٹرانسپورٹر ٹرکوں کے وسیع تر ٹریفک جام بھی دیکھے گئے تھے۔

جرمن ہائی وے پر چیکنگ

باویریا کے صوبائی وزیر داخلہ یوآخم ہیرمن کے مطابق جنوبی جرمن ریاست اور آسٹریا کے درمیان بارڈر کنٹرول ہائی وے پر اچانک چیکنگ کے ذریعے کی جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام مسافروں کو اپنے پاسپورٹ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بجائے صرف مشکوک نظر آنے والی گاڑیوں کو ٹریفک سے الگ کیا جائے گا۔ ہرمن نے کہا کہ مرکزی شاہراہوں پر بھی چیکنگ ممکن ہے، لیکن ایسا 24 گھنٹے نہیں کیا جائے گا۔

سیاسی پناہ گزینوں کو روکنا

جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر بغیر اجازت ملک میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کو پکڑنے کے لیے نئے سرحدی کنٹرولز کا استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ وفاقی جرمن پولیس کے مطابق رواں برس جنوری سے جولائی کے درمیان 34000 افراد نے جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ تقریباً 17,000 کو براہ راست سرحد پر داخلے سے روک دیا گیا۔ باقی نصف کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی اور ان پر ڈبلن ریگولیشن کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ پناہ گزین ای یو کے جس رکن ملک میں پہلے داخل ہوئے تھے، انہیں وہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔

اس کے برعکس گزشتہ برس وفاقی پولیس نے سرحد پر 127,000 افراد کو گرفتار کیا جو بغیر اجازت جرمنی میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ایک چوتھائی کو براہ راست سرحد پر داخلے سے منع کر دیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ملک میں داخل ہونے کی غیر رپورٹ شدہ کوششوں کی تعداد کتنی ہے، اور مزید سرحدی کنٹرول کے ساتھ کتنے اور لوگوں کو روکا جا سکتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں