واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی/اے ایف پی) امریکی عہدیدار کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کے الزام میں امریکہ میں گرفتار پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ نے اپنے اوپر عائد الزامات سے انکار کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نیویارک کی ایک عدالت میں پیشی کے دوران آصف مرچنٹ نے اپنے اوپر عائد الزامات سے انکار کیا جس کے بعد کیس کی سماعت 6 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے ایک امریکی عہدیدار کو قتل کرنے کی مبینہ سازش کے الزام میں آصف رضا مرچنٹ پر فردِ جرم عائد کر رکھی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف اور استغاثہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق پاکستانی شہری 46 سالہ آصف رضا مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکی سرزمین پر ایک سیاستدان یا امریکی حکومت کے عہدیدار کو قتل کرنے کے لیے ایک کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ایک بیان میں کہا کہ آصف مرچنٹ کے خلاف دہشت گردی اور کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ ایران کی ایما پر امریکیوں کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں، ہم انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عمل جاری رکھیں گے۔‘
یاد رہے ایران کے بین الاقوامی آپریشنز کے سربراہ اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی جنوری 2020 میں بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ ایرانی حکام نے بارہا ان کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اٹارنی بریون پیس کا کہنا تھا کہ ’آج کی فرد جرم دہشت گردوں کے لیے ایک پیغام ہے۔‘
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا کہ گرفتار کیے گئے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کے ایران سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ منصوبہ ایران کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
یاد رہے کہ امریکی حکام کی جانب سے اس عہدیدار کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی جن کے قتل کی سازش کی گئی تھی۔
تاہم اس سے قبل اٹارنی جنرل نے واضح کیا تھا کہ آصف مرچنٹ کا رواں برس 13 جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے کسی تعلق کا کوئی ثبوت نہیں۔
اگست 2024 کے اوائل میں بروکلن کی وفاقی عدالت میں استغاثہ کی طرف سے جمع کرائی دستاویزات میں امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آصف مرچنٹ کی جانب سے قتل کی اس منصوبہ بندی کو ناکام بنایا اور ایسا کوئی حملہ ہونے سے روکا ہے۔
آصف مرچنٹ کون ہیں؟
دستاویزات کے مطابق امریکی حکام نے آصف مرچنٹ کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کا پورا نام آصف رضا مرچنٹ ہے اور وہ پاکستانی شہری ہیں۔
یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں اور ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں، مذید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم نے امریکی حکام کے ان بیانات کو دیکھا ہے جن کے مطابق اس معاملے کی تفتیش ابھی جاری ہے اور اسی لیے باضابطہ ردعمل جاری کرنے سے قبل ہم اس شخص کے کے ماضی سے متعلق معلومات کی توثیق چاہتے ہیں۔‘
دفترِ خارجہ کی ترجمان نے اپنا مؤقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکی حکام کی جانب سے زیر حراست پاکستانی شہری کے بارے میں تفصیلات کا انتظار کر رہا ہے۔
امریکی دستاویزات میں آصف مرچنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ 1978 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور پاکستان میں ہی رہائش پذیر ہیں۔
عدالت میں استغاثہ کی جانب سے جو دستاویزات جمع کروائی گئی ہیں۔ ان میں لکھا گیا کہ آصف مرچنٹ نے حکام کو بتایا کہ ان کی ایک اہلیہ اور بچے پاکستان میں ہیں جبکہ ان کی ایک اور اہلیہ اور بچے ایران میں بھی رہتے ہیں۔
امریکی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ کی سفری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے ایران، شام اور عراق کئی بار سفر کیا۔
’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘
عدالتی دستاویزات کے مطابق اپریل 2024 کے دوران آصف مرچنٹ نے ایران میں کچھ وقت گزارا اور اس کے بعد وہ پاکستان سے امریکہ آئے۔
آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر جس شخص سے رابطہ کیا اس نے نیو یارک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی اطلاع دی تھی۔
عدالتی دستاویزات میں آصف مرچنٹ پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے جون کے اوائل میں اس مخبر سے نیو یارک میں ملاقات کی جس دوران انھوں نے اس شخص کو قتل کے منصوبے کی تفصیلات بتائی تھیں۔
دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر اپنے مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘ بھی بنایا۔
مرچنٹ پر الزام ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہدف کے گھر سے دستاویزات چُرائی جانی تھیں، مظاہرہ کیا جانا تھا اور ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا قتل کروایا جانا تھا۔
دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا کہ آصف مرچنٹ نے اس شخص سے کہا کہ ان کی ملاقات اجرتی قاتلوں سے کروائی جائے جس کے بعد جون میں ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے جون کے دوران ایک ہِٹ مین یعنی اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انھیں قتل کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ مبینہ طور پر قتل کے منصوبے کی تکمیل سے قبل 12 جولائی کو امریکہ چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں پرواز کی بُکنگ بھی کر رکھی تھی۔
آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑنے کے بعد کوڈ ورڈ کی مدد سے رابطے میں رہیں گے مگر اسی روز امریکی حکام نے انھیں گرفتار کیا تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔
ایران سے تعلقات کا الزام
امریکی اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’ایران کئی برسوں سے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد انتقام کی کوششیں کر رہا ہے جسے محکمۂ انصاف کی جانب سے جارحانہ انداز میں ناکام بنایا جا رہا ہے۔
’محکمہ انصاف ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا تاکہ ایران کے مہلک منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے اور امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی امریکی شہری یا سرکاری اہلکار کو قتل کرنے کی کوشش ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ایف بی آئی تمام وسائل کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گی۔‘
امریکی اٹارنی بریون پیس نے اس حوالے سے ایف بی آئی کے علاوہ نیو یارک کی پولیس، اٹارنی کے دفتر، امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کا شکریہ ادا کیا۔
جبکہ نیو یارک میں ایف بی آئی کے قائم مقام اسسٹنٹ ڈائریکٹر کرسٹی کرٹس نے کہا کہ ’خوش قسمتی سے مرچنٹ نے جن قاتلوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی، وہ خفیہ ایف بی آئی ایجنٹس تھے۔
’اس کیس نے نیو یارک، ہیوسٹن، اور ڈلاس میں ہمارے ایجنٹس، تجزیہ کاروں اور وکلا کی محنت اور عزم کو اجاگر کیا ہے۔‘