واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) ماہرین کا کہنا ہےکہ حزب اللہ کے زیر استعمال پیجرز دھماکے ایک ایسی طویل منصوبہ بند کارروائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو ممکنہ طور پر سپلائی چین میں گھس کر اور آلات کی لبنان میں ترسیل سے پہلے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ جعلسازی کے ذریعے انجام دی گئی تھی۔
ذرائع کچھ بھی ہوں، پیجرز نے سینکڑوں چھوٹے دھماکوں کے ساتھ لوگوں کی ایک غیر معمولی تعداد کو نشانہ بنایا اور ہلاکتوں اور زخمیوں پر منتج ہوئے۔
اے پی کے فوٹوگرافروں کے مطابق، زخمیوں سے بھرے اسپتالوں میں، اسٹریچر پر لے جائےجانے والے زخمیوں میں سے کچھ کے ہاتھ غائب تھے، چہرے جزوی طور پر اُڑ گئے تھے یا ان کے کولہوں اور ٹانگوں میں سوراخ ہو گئے تھے۔ وسطی بیروت کی ایک مرکزی سڑک پر، ایک کار کا دروازہ خون سے لت پت تھا اور ونڈشیلڈ میں شگاف پڑ گیا تھا۔
لبنان کے وزیر صحت، فراس ابیاد نے قطر کے الجزیرہ نیٹ ورک کو بتایا کہ ان دھماکوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک 8 سالہ بچی بھی شامل ہے، اور تقریباً 2,750 زخمی ہوئے، جن میں سے 200 کی حالت نازک ہے۔ زیادہ تر کو چہرے، ہاتھ یا پیٹ کے ارد گرد زخم آئے تھے۔
حزب اللہ کی ہلاکتیں
اطلاعات کے مطابق مرنے والے نو افراد میں سے آٹھ کا تعلق حزب اللہ سے تھا۔ گروپ نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی تھی کہ پیجر بم دھماکوں میں اسکے کم از کم دو ارکان مارے گئے۔ حزب اللہ کے ایک اہلکار کے مطابق جس نے نام ظاہر نہیں کیا، ان میں سے ایک حزب اللہ کے رکن پارلیمنٹ علی عمارکا بیٹا تھا۔ گروپ نے بعد میں اعلانات جاری کیے کہ چھ دیگر ارکان منگل کو ہلاک ہوئے ہیں تاہم یہ نہیں بتایا کہ کیسے۔
حزب اللہ نے کہا، “ہم اسرائیلی دشمن کو اس مجرمانہ جارحیت کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس نے شہریوں کو بھی نشانہ بنایا،” حزب اللہ نے مزید کہا کہ اسرائیل کو “یقینی طور پر اس کی سزا انصاف کے مطابق ملے گی۔”
حزب اللہ گروپ پیجرز کیوں استعمال کرتا ہے؟
حزب اللہ ہیکنگ یا سائبر حملے سے بچنے کے لیے روایتی اسمارٹ فون ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ رواں سال فروری میں حسن نصراللہ نے اپنے جنگجوؤں کو کہا تھا کہ وہ اپنے سمارٹ فونز کا استعمال ترک کر دیں کیونکہ اسرائیل انہیں نشانہ بنانے یا سرویلنس کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
دھماکے کیسے کیے گئے؟
شان مور ہاؤس نے جو برطانوی فوج کے ایک سابق افسر اور دھماکہ خیز مواد کے ماہر ہیں ،کہا ہے کہ دھماکوں کی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ ایک چھوٹا دھماکہ خیز چارج، جو پنسل اریزر کے سائز کا تھا، ان پیجرز میں رکھا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیلیوری سے پہلے ان میں یہ گڑ بڑ کی گئی تھی، اور بہت امکان ہے کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد نے ایسا کیا ہو۔
برسلز میں مقیم “پولیٹیکل رسک” کے سینئر تجزیہ کار ایلیا جے میگنیئر نے کہا کہ انہوں نے حزب اللہ کےان ارکان سے بات کی جنہوں نے ایسے پیجرز کی جانچ پڑتال کی ہےجو پھٹے نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ دھماکوں کو جس چیز نے متحرک کیا، وہ بظاہرتمام ڈیوائسز کو بھیجا گیا ایک “ایرر میسج “تھاجس کی وجہ سے پیجر ’وائبریٹ‘ ہوگئے، اور انہیں استعمال کرنے والا صارف اسے روکنے کے لیے بٹن کلک کرنے پر مجبور ہوگیا۔
انہوں نے کہا اس امتزاج سے اندر چھپا ہوا کم مقدار دھماکہ خیز مواد پھٹ گیا اور اس عمل نے اسے بھی یقینی بنایا کہ دھماکے کے وقت صارف وہاں موجود ہو۔
اسرائیل کی ماضی میں سرحدوں سے باہر ہلاکت خیز کارروائیاں
اسرائیل کی اپنی سرحدوں سے باہر ہلاکت خیز کارروائیاں کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس سال بیروت میں الگ الگ اسرائیلی فضائی حملوں میں حماس کے ایک سینئر عہدیدار اور حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر صالح عروری کو ہلاک کر دیا گیا۔ ایران میں ایک پراسرار دھماکےمیں جس کے لیے بھی اسرائیل پر الزام عائد کیا گیا، حماس کے سپریم لیڈر اسماعیل ہنیہ ہلاک ہو گئے۔
اسرائیل ماضی میں حماس کے عسکریت پسندوں کو ’بوبی ٹریپ سیل فونز‘ کے ذریعے ہلاک کر چکا ہے اور بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2010 میں ایران کے جوہری پروگرام پر Stuxnet کمپیوٹر وائرس کے حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا۔
پیجر بم دھماکوں نے ممکنہ طور پر سیکورٹی اور مواصلات میں کمزوریوں کے بارے میں حزب اللہ کے خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ اسرائیلی حکام مہینوں سے جاری تنازعہ کو بڑھانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان روزانہ فائرنگ کے تبادلے میں لبنان میں سینکڑوں اور اسرائیل میں کئی درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور سرحد کے دونوں طرف ہزار وں بے گھر ہو چکے ہیں۔
منگل کے روز، اسرائیل نے کہا کہ اسے شمال میں حزب اللہ کے حملوں کو روکنا ہے تاکہ رہائشیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے، اب یہ ایک حکومت کا جنگ کا ہدف ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے اس ہفتے کہا تھا کہ تنازعہ میں توجہ غزہ سے اسرائیل کے شمال کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور حزب اللہ کے ساتھ سفارتی حل کا وقت ختم ہو رہا ہے۔