نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نےپیر کے روز اسرائیل کی فوج پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ کے اسکولوں، انسانی ہمدردی کے کارکنوں او ر عام شہریوں پر حملے کر رہا ہے جو امریکہ کی ایک ایسے وقت میں اپنے قریبی اتحادی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت ہے جب جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں غیر معمولی طور پر اسرائیلی فوج کے خلاف کھلم کھلا بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں کیے گئے ان بہت سے حملوں کو روکا جاسکتا تھا جن میں اقوام متحدہ کے اہلکار اور انسانی ہمدردی کے کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے۔
کونسل کے بہت سے ارکان نے گذشتہ ہفتے ایک سابق اسکول پر اسرائیلی حملے کاحوالہ دیا جو شہری پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والا وہ مرکز تھا جسے یو این آر ڈبلیو اے کے نام سے معروف فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کی اقوام متحدہ کی ایجنسی چلاتی تھی۔ اس حملے میں عورتوں او ر بچوں سمیت، ہلاک ہونے والوں میں ایجنسی کے چھ اہلکار بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے کہا کہ اس نے احاطے میں حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کو نشانہ بنایا تھا، اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے پیر کو زور دیاکہ اس حملے میں حماس کے عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔
انہوں نے چار کے نام بتاتے ہوئے کونسل کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ دن میں یو این آر ڈبلیو اے کے ساتھ اور رات کو حماس کے لیے کام کرتے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
تھامس گرین فیلڈ نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ امریکہ اسرائیل کے لیے، فلسطینی علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں کیلئے سہولتیں فراہم کر نے، اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں اور یو این آر ڈبلیو اے کی پناہ گاہ جیسی تنصیبات کی حفاظت کی ضرورت کو اجاگر کرتا رہے گا۔
انہوں نے ترک امریکی کارکن عائشہ نور ایگی کی موت پر امریکہ کی برہمی کا بھی اعادہ کیا، جنہیں گزشتہ ہفتے مغربی کنارے میں ایک احتجاج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے کہا کہ اس نے ایگی کو غالباً غلطی سے ہلاک کیا تھااور حکومت نے فوجداری تفتیش شروع کر دی ہے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ اسرائیلی ڈیفینس فورس، آئی ڈی ایف ایک پیشہ ور فوج ہے اور اچھی طرح جانتی ہے کہ ایسا کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ توقع کرتا ہے کہ اسرائیلی فوجی رہنما اپنی کارروائیوں کے قواعد اور طریقہ کار سمیت یہ یقینی بنانے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کا نفاذ کریں گےکہ ان کی فوجی کارروائیاں انسانی ہمدردی کی کارروائیوں سےمتصادم نہ ہوں اور اسکولوں اور دوسری شہری تنصیبات کو ہدف نہ بنایا جائے۔
گرین فیلڈ نے کہا کہ “ہم اسرائیل کو یہ بھی واضح طور پر بتاتے رہے ہیں کہ اس کی افواج کی جانب سے اقوام متحدہ کی نمایاں طور سے نشان لگی ہوئی گاڑیوں پر فائرنگ کا قطعی طور پر کوئی جواز نہیں ہے جیسا کہ حال ہی میں متعدد مواقع پر ہوا ہے۔”
اس کے ساتھ ہی، انہوں نے کہا کہ حماس بھی شہری مقامات پر چھپی ہوئی ہے، اور بعض صورتوں میں، شہری مقامات پر قبضہ یا انہیں استعمال کر رہی ہے، جو “ایک جاری خطرہ” ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کو کوئی معاہدہ جلد از جلد طے کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اب جب امریکہ ساتھی ثالثوں مصر اور قطر کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ دونوں فریقوں کو اس بات پر راضی کر سکیں کہ “بس اب بہت ہوچکا “، انہوں نے کہا، “یہ آخر کار سیاسی عزم کا اور مشکل سمجھوتوں کا سوال ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اس ہفتے مذاکرات کے لیے مصر جا رہے ہیں جن میں اس منصوبے کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت بھی شامل ہو گی ۔
تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ “حماس پر اثر و رسوخ رکھنے والے کونسل کے تمام ارکان پر زور دیتا ہے کہ وہ حماس کے رہنماؤں پر یہ دباؤ ڈالنے میں دوسروں کے ساتھ شامل ہو جائیں کہ وہ تاخیر سے کا م لینا بند کریں ،یہ سمجھوتے کریں ، اور بغیر کسی تاخیر کے معاہدے کو قبول کریں۔”
انہوں نے یہ بات غزہ میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ کہنے کے بعد کی ،کہ یہ علاقہ اپنے 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لیے “زمین پر جہنم” ہے، اور انہوں نے شہریوں کے لیے موثر تحفظ کے فقدان کو “غیر ذمے دارانہ” قرار دیا۔
غزہ کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی اور تعمیر نو کی سینئر کوآرڈینیٹر سگریڈ کاگ نے کونسل کے ارکان اور نامہ نگاروں کو بتایا کہ جنگ نے علاقے کو ” پاتال میں تبدیل کر دیا ہے۔”
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جارحیت کے دوران 41,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جو شہریوں اور جنگجوؤں کی تعداد کو الگ الگ نہیں بتاتی ۔
کاگ نے کہا کہ لاقانونیت، اسرائیلی انخلاء کے احکامات، لڑائی اور امدادی کارکنوں کے لیے مشکل حالات جن میں اسرائیل کی جانب سےرسائی سے انکار، تاخیر، حفاظت اور تحفظ کا فقدان، اور “ناقص لاجسٹک انفراسٹرکچر” کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
اسرائیل کے سفیر نے زور دیاکہ جنگ پرمجبور کیے جانے والے ملک اسرائیل کی انسانی ہمدردی کی کوششیں مثالی ہیں اور انہوں نے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ پر “حقائق پر بات کرنے” پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ 50 ہزار سے زیادہ ٹرکوں اور تقریباً 10 لاکھ لینڈ کراسنگز کے ذریعے دس لاکھ ٹن سے زیادہ امداد پہنچائی گئی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بمشکل کسی معمولی حصے کو ہی روکا گیا۔
ڈینن کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر، کاگ نے انسانی ہمدردی کے امدادی قافلوں اور اسکولوں اور اسپتالوں پر حالیہ حملوں کی طرف اشارہ کیا جہاں اسرائیل کو پیشگی اطلاع موصول ہو گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ” بات ٹرکوں کی نہیں ہے یہ اس بارے میں ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہے، “انہوں نے کہا۔ “ہم اس بارےمیں درست طور پر نہیں جانتے کہ لوگوں کو نہ صرف یہ کہ روزانہ کیا چاہیے بلکہ اس بارے میں بھی،جسے ہم سب ایک باوقار انسانی زندگی سمجھتے ہیں۔‘‘
اسرائیل نے بارہا کہا ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتا ہے، جو اکثر عام شہریوں کے ساتھ چھپتے ہیں اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جنوبی اسرائیل میں حماس کے 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملوں کے جواب میں، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی۔