واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکہ کے خدشات کئی سالوں سے ’واضح اور مستقل ہیں۔‘
منگل کے روز واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے الزام میں ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیے جانے کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ مہلک ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں ملوث نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کرکے بین الاقوامی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کا حصہ رہی ہے۔
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پابندیوں اور دیگر ٹولز کا استعمال جاری رکھے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کا طویل المدت سے شراکت دار رہا ہے تاہم اب بھی کچھ معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ’جہاں ہمارے درمیان اختلاف ہوگا، تو ہم اپنی قومی سکیورٹی کی خاظر ان اختلافات پر عمل کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے الزام میں امریکہ نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کئی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی تھی۔
محمکہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ پابندیاں آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (اے ای سی اے) اور ایکسپورٹ کنٹرول ریفارم ایکٹ (ای سی آر اے) کے تحت چین کے تین اداروں، ایک چینی شخصیت اور ایک پاکستانی ادارے پر بیلسٹک میزائل کے پھیلاؤ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عائد کی جا رہی ہیں۔
تاہم پاکستان نے اس امریکی اقدام کو ’سیاسی‘ اور ’جانبدار‘ قرار دیا ہے۔